12 مارچ ، 2020
غالباً یہ 1979کی بات ہے جب پہلی بار دلّی جانے کا اتفاق ہوا۔ رشتہ داروں کے علاوہ جو کئی یادگار ملاقاتیں آج بھی یاد ہیں ان میں سے ایک مشہور ترقی پسند ڈرامہ آرٹسٹ صفدر ہاشمی کے ساتھ گزرا ہوا وقت، وہ اسٹریٹ تھیٹر کیا کرتا تھا۔ جہاں تک مجھے یاد ہے اس نے کئی بار فیض امن میلے میں بھی شرکت کی تھی۔ آج جب دلّی میں خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے تو مجھے اچانک اس کا قتل بھی یاد آ گیا۔ یہ تو مجھے نہیں پتا کہ اُس کیس کا کیا بنا مگر یہ یاد ہے کہ وہ اپنے فن اور خیالات کی وجہ سے ہی مارا گیا۔
ابھی کچھ دنوں پہلے ایک بھارتی چینل پر مشہور اینکر پرسن کرن تھاپر کے ساتھ اپنی ایک کزن فرح نقوی کا دلّی فسادات پر انٹرویو دیکھا تو اس وقت کا دلّی اس لئے بھی یاد آیا کہ اس وقت بھی صفدر کہتا تھا کہ بھارت میں بھی انتہا پسندی کے جراثیم موجود ہیں۔
فرح جس انسانی حقوق کی تنظیم کے ساتھ کام کررہی ہے اس نے کئی سال پہلے گجرات میں ہونے والے مسلم کش فسادات پر بھی رپورٹ بنائی تھی۔ وہ کہہ رہی تھی کہ جتنے لوگوں سے اس کی بات ہوئی سب کہہ رہے تھے ’’کوئی نہیں آیا بچانے‘‘۔ یہ تصادم نہیں، ٹارگٹ حملے تھے جس میں ’’ایک گھر جلایا جاتا دوسرا نہیں، ایک دکان پر حملہ دوسری دکان محفوظ‘‘۔ پھر اس نے کرن سے کہا ’’میں یہاں پیدا ہوئی ہوں، بڑی ہوئی ہوں، تم نے خود ساری زندگی یہاں کام کیا ہے، کیا یہ وہی دلّی ہے‘‘۔
مجھے رہ رہ کر صفدر کی باتیں یاد آرہی تھیں۔ اس میں اب کوئی دو رائے نہیں رہی کہ آج کا بھارت جمہوری رہا نہ سیکولر بلکہ ایک فاشسٹ اسٹیٹ میں تبدیل ہو گیا ہے مگر مودی جس آگ سے کھیل رہا ہے شاید وہ خود بھی اپنے آپ کو اس سے بچا نہ پائے۔
میرا بھارت میں دو یا تین مرتبہ جانا ہوا۔ دلّی میں ماموں، لکھنو میں خالہ… اب تو دونوں ہی نہ رہے۔ دو سفر مجھے ہمیشہ یاد رہ گئے، ایک جو 1979میں کیا اور دوسرا کئی سال بعد ایک امن مشن کے ساتھ کیا جس میں پاک بھارت تعلقات پر بھارتی صحافیوں اور دانشوروں سے سیر حاصل گفتگو رہی۔
مجھے آج بھی یاد ہے کہ جب میں نے پہلی بار کئی سو کے مجمع کے سامنے یہ کہا کہ ’’پاکستان میں لوگوں نے کبھی بھی انتہا پسندی کو ووٹ نہیں دیا مگر یہ بات دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک کے بارے میں نہیں کہی جا سکتی، جہاں کا ووٹر ایسی سوچ کو اوپر لارہا ہے جو انتہا پسند ہے‘‘۔ اس محفل میں کلدیپ نائر صاحب بھی موجود تھے۔ میں اسٹیج سے نیچے آیا تو کہنے لگےwell said boy:۔ حالانکہ میں بوائے نہیں رہا تھا مگر ان کا کہا اچھا لگا۔
ماموں جان نے پتا بتا دیا تھا اور کہا بس اسٹیشن سے تانگہ پکڑنا اور پتا ہاتھ میں تھما دینا۔ میں نے ایسا ہی کیا اور اس نے بھی سیدھا گھر کے سامنے لاکھڑا کیا۔ ابھی میں اِدھر اُدھر دیکھ ہی رہا تھا کہ اوپر سے ماموں کی آواز آئی ’’ٹھیک جگہ پہنچ گئے ہو‘‘۔ وہیں سے آداب کیا اور اوپری منزل پر چلے گئے۔ چھوٹا سا گھر مگر کون تھا جو یہاں نہیں آیا، بڑے بڑے شاعر اور بائیں بازو کے سیاسی رہنما۔ وہ خود بھی ایک زمانے میں متحرک تھے پھر ڈرامہ نویسی کی طرف چلے گئے۔ اسی دورے میں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی بھی جانے کا موقع ملا۔ یہیں صفدر سے پہلی ملاقات ہوئی مگر آج کا دلّی نہ ان کا ہے نہ ہی ان جیسے نظریاتی لوگوں کا۔
اب تو بحث ہی دوسری ہو رہی ہے۔ انتہا پسندی کی آگ بڑی تیزی سے پھیلتی ہے مگر اس کی لپیٹ میں اکثر آگ لگانے والا بھی آ جاتا ہے۔ جس دن بھارتیہ جنتا پارٹی نے پہلی بار نریندر مودی کو بھارت کا وزیراعظم نامزد کیا اس دن ہی سیکولرازم کے خاتمہ کا آغاز ہو چکا تھا۔
کبھی میں سوچتا ہوں اس سب میں ہمارے لئے کیا سبق ہے۔ وہاں تو کشمیر بھی جل رہا ہے، تحریک آزادیٔ کشمیر بھی جاری ہے اور دلّی بھی جل رہا ہے۔ یہاں بحث یہ ہے کہ آج کا بھارت یہ ثابت کررہا ہے کہ قائداعظم کا ’’دو قومی نظریہ‘‘ کا بیانیہ درست ثابت ہوا۔ لگتا تو کچھ ایسا ہی ہے مگر ہم نے خود جناح کے نظریے کے ساتھ کیا کیا۔ وہ ایک صاف ستھرے سیاستدان تھے ہم نے سیاست کی ہی صفائی کر ڈالی، ان کے نظریہ میں پاکستان میں قانون کی حکمرانی ہوگی، ہم نے اسے نظریۂ ضرورت سے بدل ڈالا۔
قائد کے نظریہ میں مارشل لا کی کوئی گنجائش نہیں، یہاں 34سال آمریت رہی۔ ہماری انہی پالیسیوں کی وجہ سے 24سال بعد ہی آدھا پاکستان ہم سے علیحدہ ہو گیا۔ مگر پچھلے چند برسوں میں ہم نے ایک بڑی لڑائی لڑی ہے، 70ہزار افراد شہید ہوئے، ہمارے فوجی جوان، افسران، سیاست دان، ان کی اولادیں اور عام شہری۔ ابھی انتہا پسندی کی لڑائی ختم نہیں ہوئی۔ اگر ہمارے ادارے اور حکمراں اس کو نہ روک پائے تو کسی بھی وقت دہشت گردی کا یہ جن دوبارہ سر اٹھا لے گا۔ لسانی و فرقہ واریت، عدم برداشت، زور زبردستی سے اپنی بات منوانا، یہ سب باتیں کسی بھی قوم کی تباہی کا باعث ہوتی ہیں۔
کشمیر کا مسئلہ حل کرکے اور ان کو حق خودارادیت دے کر بھارت اور پاکستان دونوں اپنےکروڑوں لوگوں پر اربوں روپے خرچ کرکے انہیں خوشحال بنا سکتے ہیں۔ ہمیں بیماریاں کیا ماریں گی ہم تو بیماروں کو مار رہے ہیں کیونکہ نہ صحت، نہ تعلیم، نہ پینے کا صاف پانی۔
نفرتوں نے محبتوں کی جگہ لے لی ہے۔ چہرے کی لالی جاتی رہی کیونکہ خون کی عادت سی پڑ گئی ہے۔مودی جی کے بھارت میں نہ گاندھی برداشت ہے نہ نہرو تو فیض احمد فیضؔ کیسے برداشت ہوگا اور اس کی یہ نظم جس پر وہاں پابندی ہے ’’لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے‘‘۔ ہمارے یہاں اس پر پابندی جنرل ضیاء کے دور میں لگی تھی مگر ہم اس منزل سے آگے نکل چکے۔ اس آگ کو روکیں اس سے پہلے کے دیر ہوجائے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔