بلاگ
Time 02 اپریل ، 2020

میر جاوید رحمٰن مرحوم!

میر جاوید رحمٰن اس جہانِ فانی سے رخصت ہو گئے اللہ تعالیٰ اُن کی مغفرت فرمائے اور اُنہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے، آمین!—فوٹو فائل 

میر جاوید رحمٰن اس جہانِ فانی سے رخصت ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ اُن کی مغفرت فرمائے اور اُنہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے، آمین! میر جاوید رحمٰن کے ساتھ کبھی کام کرنے کا موقع تو نہیں ملا اور اس بات کا مجھے افسوس بھی ہے کہ اُن کی خواہش کے باوجود اخبارِ جہاں کے لیے کبھی کچھ لکھ نہ سکا لیکن مرحوم سے میرا ایک محبت کا رشتہ تھا۔

 میر صاحب بہت کم اسلام آباد تشریف لاتے مگر جب کبھی آتے توملاقات بھی ہو جاتی۔ کبھی کبھار وہ مجھے فون بھی کیا کرتے اور موبائل فون میسجز کے ذریعے بھی ہمارے مابین رابطہ رہتا۔

میر جاوید رحمٰن کی شخصیت میں ایک انکساری تھی، وہ محبت کرنے والے آدمی تھے۔ جنگ گروپ کے چیئرمین اور پبلشر ہونے کے باوجود اپنے ادارے میں کام کرنے والوں کے ساتھ اُن کا تعلق ایک باس یا مالک کے بجائے ایک ساتھی کا سا تھا۔ وہ ایک مذہبی ذہن کے حامل فرد تھے ۔ اسلام سے متعلق اُن کا علم بھی کافی تھا اور اپنی گفتگو میں بھی وہ قرآن و حدیث کا اکثر حوالہ دیا کرتے تھے۔ 

کبھی کبھار میری خبروں یا کالم پر فون کرکے مجھے اپنے ردعمل اور رائے سے آگاہ کرتے۔ ایک بار اُنہوں نے مجھے فون کیا کہ جنگ میں شائع ہونے والے میرے ایک کالم کو وہ اخبارِ جہاں میں چھاپنا چاہتے ہیں، میں حیران تھا کہ جنگ گروپ کے مالک کو مجھ سے یہ پوچھنے کی کیا ضرورت ہے کہ میرے جنگ اخبار میں شائع شدہ کالم کو وہ جنگ گروپ کے ہی ایک میگزین (اخبارِ جہاں) میں دوبارہ شائع کرنا چاہتے ہیں۔

اسی طرح ایک بار مجھے فون کرکے اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں اخبارِ جہاں کے لیے باقاعدگی سے کالم لکھنا شروع کر دوں۔ میں نے ابھی جواب بھی نہ دیا تھا تو خود ہی کہنے لگے کہ اُن کی اس سلسلے میں میر شکیل الرحمٰن صاحب (جو اُن کے چھوٹے بھائی ہیں) سے بات ہو گئی ہے لیکن اُن (میر شکیل الرحمٰن) کا کہنا تھا کہ آپ (میر جاوید رحمٰن) خود انصار عباسی سے بات کریں۔

 میں نے انہیں کہا کہ میں دی نیوز کے لیے کام کرتا ہوں، جنگ میں بھی ہفتے میں دو کالم لکھتا ہوں، اس کے ساتھ اخبارِ جہاں کے لیے باقاعدگی سے لکھنا شاید میرے بس میں نہ ہو۔ اُنہوں نے مجھے سوچنے کا کہا لیکن میں اُن کی اس خواہش کو پورا نہ کر سکا، جس پر مجھے افسوس ہے۔ لیکن اس کے بعد بھی کبھی اُنہوں نے مجھے ذرہ برابر بھی احساس نہ ہونے دیا کہ میں نے اخبارِ جہاں میں اُن کے کہنے کے باوجود لکھنے میں دلچسپی نہ دکھائی۔ وہ جب ملتے بہت محبت اور شفقت کے ساتھ۔ میر صاحب کے مزاج میں مزاح کا عنصر بھی شامل تھا اور گفتگو کے دوران مذاق بھی کیا کرتے۔

اُن کی بیماری کے بارے میں مجھے علم ہی نہ ہوا اور پتا اُس وقت چلا جب اُن کے چھوٹے بھائی میر شکیل الرحمٰن کو نیب نے ایک جھوٹے کیس میں گرفتار کر لیا۔ مجھے جب اُن کی طبیعت کی خرابی کا علم ہوا تو اُس وقت وہ اسپتال میں تھے اور ڈاکٹروں نے اُن کی فیملی کو بتا دیا تھا کہ تشویشناک حالت کی وجہ سے اُنہیں وینٹی لیٹر پر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ 

میر جاوید صاحب نے اُس موقع پر خواہش کا اظہار کیا کہ اُن کی اُن کے چھوٹے بھائی میر شکیل الرحمٰن صاحب سے ملاقات کروائی جائے۔ مجھے اس بات کا بھی پتا ہے کہ فیملی کی طرف سے حکومت کے ساتھ ساتھ نیب کے اعلیٰ حکام سے بھی درخواست کی گئی کہ میر شکیل الرحمٰن کو ایک یا دو دن کے لیے اُن کے بیمار بھائی سے ملنے کی اجازر دی جائے لیکن ایسا نہ ہو سکا۔

لاہور ہائیکورٹ میں بھی درخواست دی گئی کہ میر جاوید صاحب کی حالت بہت خراب ہے، اس لیے چھوٹے بھائی کو بسترِ مرگ پہ پڑے اپنے بڑے بھائی سے ملنے کی اجازت دی جائے لیکن عدالت عالیہ نے بھی یہ درخوات منظور نہ کی۔ میر جاوید صاحب کی وفات سے دو روز قبل نیب نے ایک پریس ریلیز کے ذریعے چیئرمین نیب کی طرف سے میر شکیل الرحمٰن کو بیمار بھائی سے ملنے کے لیے ایک دن کے لیے کراچی جانے کی اجازت کا اعلان تو کیا لیکن یہ اعلان محض اعلان ہی رہا کیونکہ عملاً نیب نے میر شکیل الرحمٰن صاحب کو ایک دن کے لیے چھوڑنے کی اجازت کو عدالت کے فیصلے سے مشروط کر دیا تھا۔

حکمرانوں نے تو میر شکیل الرحمٰن کے خلاف کچھ ایسا بغض اور نفرت پال رکھی ہے کہ اُن کی طرف سے انتہائی سرد مہری کا اظہار کیا گیا، نیب بھی اپنی ہی سیاست میں لگا رہا جبکہ عدلیہ سے بھی یہی گلہ ہے کہ اکثر کیسوں میں انصاف کرنے میں بہت دیر لگا دیتی ہے۔ جب میر جاوید رحمٰن کا انتقال ہو گیا تو تبھی میر شکیل الرحمٰن کو اجازت ملی کہ اپنے بڑے بھائی کے جنازہ اور اُن کی تدفین میں شرکت کر لیں۔

میر جاوید رحمٰن پاکستان کی صحافت کا ایک بڑا نام تھے۔ اُن کی وفات پردوسروں کے علاوہ صدرِ مملکت، آرمی چیف، سیاستدانوں، صحافی برادری، وزرا، حتیٰ کہ وزیراعظم عمران خان کے مشیروں نے بھی تعزیتی پیغامات دیے۔ وزیراعظم عمران خان کو شاید ابھی تک میر جاوید رحمٰن کی وفات کی خبر نہیں ملی، ورنہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اُن کی طرف سے کوئی تعزیتی پیغام نہ دیا جاتا، چاہے اُنہیں اُس جنگ گروپ پر کتنا ہی غصہ کیوں نہ ہو جس کی کبھی وہ تعریف کرتے نہ تھکتے تھے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔