کرکٹرز کے میڈیا سے تعلقات پر ماضی کے بڑے کھلاڑیوں کا دلچسپ مذاکرہ

 ٹی ٹوئنٹی آنے کے بعد صحافت میں تیزی نظر آرہی ہے،وقار یونس ،فوٹو:فائل 

لاک ڈاؤن کے دوران ماضی کے تین عظیم کھلاڑیوں رمیز راجا، وقار یونس اور مشتاق احمد نے سینیئر صحافیوں کے ساتھ کھلاڑیوں اور صحافیوں کے تعلقات کے عنوان سے ایک مذاکرے میں اپنے تجربات بتائے۔

صحافیوں کا کہنا تھا کہ اس فیلڈ میں ہمیں ذمہ داری کے ساتھ اپنے کرکٹرز کے ساتھ تعلقات کو آگے بڑھانا ہے لیکن کھلاڑیوں کے ساتھ میل ملاپ میں حدود کا تعین اور اپنے پیشہ وارانہ کاموں میں تفریق پیدا کرنے ضرورت ہے کیوں کہ جب کھلاڑی تعلقات بنائے گا تو وہ غیر جانب داری سے رپورٹنگ نہیں کرسکے گا۔

صحافیوں کے مطابق کھلاڑیوں اور صحافیوں کے تعلقات ضروری ہیں لیکن اس میں حدود کا تعین بھی لازمی ہے۔

ماضی کے عظیم فاسٹ بولر اور موجودہ بولنگ کوچ وقار یونس نے کہا کہ ٹی ٹوئنٹی آنے کے بعد صحافت میں تیزی نظر آرہی ہے، دور جدید کی صحافت فاسٹ اور فیوریس ہے، ہر روز چونکا دینے والی اور سنسنی خیز خبر کے حصول میں لگ رہا ہے کہ اصل صحافت کھو گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کھلاڑیوں اور صحافیوں میں اعتماد کا رشتہ ہوتا ہے لیکن سنسنی خیز خبر کے حصول میں صحافیوں نے کھلاڑیوں کے اشتراک سے ڈریسنگ روم کی باتیں بھی میڈیا کی زینت بنا دیں، میڈیا اور کرکٹرز میں ہمیشہ لو اینڈ ہیٹ ریلیشن ہوتا ہے اور حدود کا تعین کرکے یہ سوچا جائے کہ کہاں سے آپ کی عزت پر حرف آئے گا۔

وقار یونس نے کہا کہ اس میں میڈیا کا قصور کم ہے، میڈیا ہاؤسز کی جانب سے بڑی خبروں کے لیے دباؤ ہوتا ہے جبکہ سابق کرکٹرز میڈیا پر بیٹھ کر جو الفاظ استعمال کرتے ہیں، وہ ان کی شایان شان نہیں ہوتے۔

عمران خان جب ہمارے کپتان تھے، تو میڈیا کی پرواہ نہیں کرتے تھے: رمیز راجا

سابق کپتان اور مشہور کمنٹیٹر رمیز راجا نے کہاکہ صحافی کو بے باک، نڈر اور غیر جانب دار ہونا چاہیے، صحافت کو ایجنڈے کی بنیاد پر نہیں کرنا چاہیے اور عمران خان جس دور میں ہمارے کپتان تھے، وہ میڈیا کی پرواہ نہیں کرتے تھے لیکن وہ مختلف وقت تھا حالیہ دور میں میڈیا طاقتور ہے۔

انہوں نے  مزید کہا کہ کچھ کھلاڑی میڈیا کو استعمال کرتے ہیں، حالیہ دنوں میں صحافیوں میں معلومات کی کمی ہے اور ہر کوئی ہیڈ لائنز اور بریکنگ نیوز کا پیچھا کررہاہے۔ 

رمیز راجا کا کہنا تھا کہ ایک دور وہ تھا جب ڈان بریڈ مین کرکٹ کھیلتے تھے اور صحافی بھی ڈریسنگ روم میں بیٹھ کر میچ کور کرتے تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اقدار تبدیل ہوئے ہیں۔

ان  کا کہنا ہے کہ فیملی کی تربیت کھلاڑی کے کیریئر میں اہم ہوتی ہے، عمران خان کہتے تھے کہ گھر ،گاڑی اور پیسے کے پیچھے نہ بھاگو جب آپ اچھا کریں گے تو تینوں چیزیں آپ کے پیچھے بھاگیں گی، کرکٹرز کو کسی کا کندھا استعمال کرنے کے بجائے رول ماڈل بننا ہوگا اور دکھاوا نہیں آپ کاکام اہم ہے۔

اس دوران وقار یونس نے موجودہ کھلاڑیوں کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہ میچور نہیں ہیں، سوشل میڈیا پر آنے والی باتوں کو رات بھر سوچتے ہیں اور اسی سوچ میں صبح گراؤنڈ پہنچ جاتے ہیں لہٰذا سوشل میڈیا سے اجتناب برتنے کی ضرورت ہے۔

رمیز راجا نے مزید کہا کہ پاکستانی صحافت میں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ چند لوگ کام کرتے ہیں اور اکثریت گپ شپ میں مصروف ہوتی ہے، گراؤنڈ میں میچ چل رہا ہوتا ہے اور صحافی میدان کی جانب پشت کرکے گپیں لگانے میں مصروف ہوتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کھلاڑیوں کے ساتھ میڈیا والے فاصلے رکھیں، میں بھی صحافت اور پرنٹ میڈیا میں آنا چاہتا ہوں لیکن میں کرکٹرز کے ساتھ فاصلے رکھ کر کام کرنے کا حامی ہوں، یہ پاور فل میڈیم ہے لیکن اس کا استعمال درست کرنے کی ضرورت ہے، حقائق لکھیں اور اس کے ردعمل سے نہ ڈریں جبکہ کچھ نئے لکھنے والے بہت اچھے ہیں اور نئے لوگ آئیں گے تو مقابلہ بڑھے گا۔

انگلش میڈیا نے مجھ سے اسامہ بن لادن کے بارے میں سوال پوچھ لیا تھا: مشتاق احمد

ماضی کے مشہور لیگ اسپنر اور پی سی بی اکیڈمی کے اسپن بولنگ کنسلٹنٹ مشتاق احمد کا کہنا ہے کہ آج کی صحافت بریکنگ نیوز والی صحافت ہے، اسی لیے کئی بار میڈیا پر پیسے لینے اور مراعات لینے کے سنگین الزامات لگتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ میں 6 سال انگلش ٹیم کے ساتھ رہا، ہمیں میڈیا کے سامنے جانے سے پہلے بریف کیا جاتا تھا اور کئی بار انگلش میڈیا بھی حدود پار کرجاتا تھا، اسی طرح ایک بار مجھ سے اسامہ بن لادن کے بارے میں سوال پوچھ لیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ میڈیا انصاف کے تقاضے پورے کرے اور اپنی ملازمت کی پرواہ کیے بغیر حق اور سچ کو رپورٹ کرے، عمران خان جب کپتان تھے وہ میچ کے بعد شام کو سینیئر صحافیوں کے ساتھ بیٹھ کر ان سے باتیں کرتے تھے کیونکہ ایک دوسرے پر اعتماد پیدا کرنے کی ضرورت تھی۔

مشتاق احمد نے کہا کہ جب وقار یونس ہیڈ کوچ تھے، میں بھی ان کے ساتھ تھا اور وہ اکثر کھلاڑیوں کو کہتے تھے کہ ڈریسنگ روم کی کہانیاں میڈیا میں نہ پہنچاؤ مگر بدقسمتی سے یہ روش تبدیل نہ ہوسکی۔

ان کا کہنا ہے کہ ہمارے دور میں اوسط درجے کا کرکٹر 10 سے 12 سال اس لیے کھیل جاتا تھا کیوں کہ وہ کھیل پر فوکس کرتا تھا لیکن آج حالات مختلف ہیں۔

مزید خبریں :