بلاگ
Time 12 اپریل ، 2020

بیورو کریسی کا لیڈر

فوٹو: فائل

ایک طرف سے کہا گیا :عمران خان پنجابی پٹھان ہیں مگر پختون پٹھانوں کے نرغے میں ہیں، جہانگیر ترین بھی پنجابی پٹھان ہیں، ذہین آدمی ہیں مگر پختون پٹھان اعظم خان زیادہ تیز ہیں۔ 

وہ عمران خان سے ترین کا فاصلہ کروانے میں کامیاب ہو گئے، کل تک بنی گالا کے معاملات بھی جہانگیر ترین دیکھتے تھے، اب نئے لوگ آ گئے ہیں، ویسے جہانگیر ترین کے سیکرٹری کا سگا بھائی انعام شاہ ابھی تک بنی گالہ کا انچارج ہے۔ 

جہانگیر ترین کے جانے بعد اسد عمر کے سوا کوئی اور پرانا دوست عمران خان کے قرب و جوار میں موجود نہیں، ایک مکالمہ جو سنا گیا، جہانگیر ترین سے کسی دوست نے پوچھا ’’اب آپ کیا کریں گے۔ ‘‘تو انہوں نے کہا۔ ’’ میں یہ سوچ رہا ہوں اب عمران کیا کرے گا‘‘۔ 

ایک خیال یہ بھی ہے کہ جو طاقتیں عمران خان کو کمزور کرنا چاہتی ہیں، انہوں نے بھی جہانگیر ترین اور عمران خان میں فاصلے پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا، ایک غیر ملکی ٹی وی نے بھی کہا ہے کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے اختلافات کورونا وائرس کے حفاظتی انتظامات پر کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔

جہاں تک جہانگیر ترین پر لگائے گئے الزامات کا تعلق ہے تو وہ بالکل غلط ہیں، صریحاً جھوٹ ہیں، رپورٹ میں بھی ایسی کوئی خاص بات نہیں ہے مگر میڈیا پر اسے بہت اچھالا گیا۔ 

56کروڑ روپے کی جہانگیر ترین کے لئے کوئی حیثیت نہیں، انہوں نے پچھلے پانچ سالوں میں 23 ارب روپے ٹیکس ادا کیا اور صرف تین ارب ریبیٹ لیا، جس میں ڈھائی ارب نون لیگ کے دور میں لیا تھا، پی ٹی آئی کے کارکن بھی جہانگیر ترین کے خلاف اپنے لیڈر کے اس فیصلے سے ناخوش ہیں اور اس معاملے کو کسی سازش کا شاخسانہ سمجھ رہے ہیں۔

عمران خان کے گرد و نواح میں یہ شور ہے :نظام کی تبدیلی عمران خان کا ماٹو ہے، وہ کرپشن کے خلاف جنگ لڑرہے ہیں، انہوں نے کسی کو نہیں چھوڑنا، چاہے کوئی اپنا ہو یا پرایا، یہی عمران خان کے سچے ہونے کی گواہی ہے کہ اس نے اپنے گہرے دوست جہانگیر ترین کے خلاف تادیبی کارروائی کا حکم دے دیا ہے۔ یہ کوئی اتنا آسان فیصلہ نہیں تھا۔ اس فیصلے نے ثابت کیا ہے کہ واقعی عمران خان ایک بڑے لیڈر ہیں۔

سچ یہی ہے کہ اس وقت عمران خان حریفانہ کشمکش کا شکار ہیں، دونوں طرف سے ان پر دباؤ ہے۔ جہانگیر ترین کے مخالفین کی خواہش ہے کہ عمران خان پچیس اپریل کو انہیں موردِ الزام ٹھہرا دیں۔ 

جہانگیر ترین کے دوست چاہتے ہیں کہ کپتان کسی غیر جانب دار شخص سے پوری انکوائری کرائیں تاکہ جہانگیر ترین کے خلاف ہونے والی سازش سے پردہ اٹھ سکے، وہ لو گ جنہوں نے بے نامی چینی کا کاروبار شروع کر رکھا ہے، انہیں سامنے لایا جائے تاکہ وہ لوگ جو عمران خان اور جہانگیر ترین میں دوریاں پیدا کرچکے ہیں۔ وہ جو صرف جہانگیر ترین کی ملوں کا آڈٹ کرانا چاہتے ہیں منہ کی کھائیں بلکہ پرائم منسٹر سیکرٹریٹ سے فارغ ہوں۔ جن میں سرِ فہرست ایک بیوروکریٹ کا نام ہے۔ 

اس کے اور جہانگیر ترین کے درمیان جھگڑا اُس دن ہوا جب جہانگیر ترین نے اسے کوئی کام کہا تو اُس نے جاکر عمران خان سے کہہ دیا کہ ’’پلیز مجھے بتائیے وزیر اعظم آپ ہیں یا جہانگیر ترین‘‘جس پر دونوں میں تلخ کلامی ہوئی۔ اس وقت تو معاملہ عمران خان نے رفع دفع کرادیا۔ جہانگیر ترین کے حلقہ احباب کا خیال ہے کہ یہ بیورو کریٹ اس وقت تو خاموش ہو گیا تھا مگر رفتہ رفتہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا۔ 

کہتے ہیں اُس نے عمران خان کے ارد گرد صرف انہی کو رہنے دیا ہے جو اُس کی زبان بولتے ہیں۔ سو اس نے خود کچھ نہیں کہا مگر ادھر ادھر سے کہلواتا رہا۔ اداروں سے غلط رپورٹیں تیار کر کے عمران خان کو بھجواتا رہا۔ اسے کابینہ میں بھی کچھ لوگ ایک آنکھ نہیں بھاتے ان میں علی زیدی، مراد سعید اور فردوس عاشق اعوان بھی شامل ہیں۔ حالانکہ یہ تینوں وزیر سب سے بہتر کام کرنے والے وزیر ہیں اور عمران خان کے سچے جانثار ہیں۔

دوسری طرف جتنے آفیسر بڑے بڑے عہدوں پر کام کررہے ہیں وہ تمام اس بیورو کریٹ کے اشارۂ ابرو کے منتظر رہتے ہیں۔ اسلام آباد کے ایک بڑے افسر نے مجھ سےکہا ’’جہاں تک اس بیورو کریٹ کی بات ہے تو وہ میرا لیڈر ہے‘‘ یعنی اس نے کھلم کھلا کہہ دیا کہ میں وہی کچھ کروں گا جو وہ کہے گا۔ کتنی عجیب بات ہے کہ اُس افسر کو فردوس عاشق اعوان نے اس عہدہ پر لگوایا ہوا ہے اور اُس پر بہت اعتماد کرتی ہیں۔

وزیراعظم کے مشیر برائے اسٹیبلشمنٹ شہزاد ارباب کو بھی فارغ کردیا گیا تھا مگر انہیں دوبارہ کابینہ میں شامل کرلیا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ عمران خان ابھی سچائی کی تلاش میں ہیں۔ شہزاد ارباب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کابینہ میں وہی جہانگیر ترین کے سب سے زیادہ قریب ہیں۔ 

کچھ لوگوں نے اسد عمر پر بھی الزام لگایا کہ اس نے جہانگیر ترین کے خلاف عمران خان کے کان بھر ے ہیں۔ حالانکہ اس میں کوئی صداقت نہیں۔ یہاں تک بات درست ہے کہ جہانگیر ترین نے جب دیکھا کہ عمران خان اسد عمر کو ہٹانے پر تل گئے ہیں تو پھر انہوں نے عبدالحفیظ شیخ کا نام پیش کیا مگر انہوں نے خود اسد عمر کے خلاف کوئی بات نہیں کی۔ یہ بات اسد عمر بھی جانتے ہیں۔ اُن کے ساتھ اس موضوع پر میری بات بھی ہوئی تھی۔ 

اسد عمر کو ہٹوانے میں بے شک بہت سے لوگوں کا کردار تھا مگر سب سے زیادہ کردار اس میں بھی اسی بیورو کریٹ نے ادا کیا تھا۔ قصہ صرف اتنا تھا کہ جس انداز میں عمران خان اس کو مخاطب کرتے تھے اسد عمر بھی اُسے اسی انداز میں مخاطب کیا کرتا تھا۔ یہ بات نائب وزیر اعظم یعنی اس بیورو کریٹ کو ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی۔ پی ٹی آئی کے تمام کارکنوں نے عمران خان سے اپیل کی ہے کہ وہ اس سارے معاملہ کی غیر جانب دارانہ تحقیقات کرکے کوئی فیصلہ کریں وگرنہ تحریک انصاف کو بھی شدید نقصان پہنچے گا اور تاریخ بھی آپ کو معاف نہیں کرے گی۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔