20 جون ، 2020
حکومتیں پہلی بھی ناکام ہوئیں لیکن اتنی جلدی اور اس حد تک ناکامی، کہ ناکامی کا لفظ احاطہ ہی نہ کر سکے، پہلی مرتبہ دیکھنے کو ملا۔ معیشت پہلے بھی خراب ہوتی رہی لیکن ڈیڑھ سال کے قلیل عرصے میں معیشت اس قدر بیٹھ جائے گی کہ پانچ، چھ فیصد سے جی ڈی پی گر کر منفی ہو جائے گی، یہ تو تاریک بین اور مایوس ماہرین معیشت نے بھی نہیں سوچا تھا۔
سیاست میں گالم گلوچ اور غیرسنجیدگی پہلے بھی تھی لیکن یہ کہ سیاست مکمل طور پر گالم گلوچ اور چھچھور پن کا نام قرار پائےگی، کبھی اس کا تصور بھی نہیں کیا تھا، صحافت پہلے بھی قدغنوں کاشکار تھی لیکن یہ کہ صحافت اس قدر بےوقعت اور غلام بن جائے گی، کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔
پولیٹکل مینجمنٹ پہلے بھی ہوتی رہی اور اداروں کو پہلے بھی استعمال کرنے کی کوششیں کی جاتی رہیں لیکن یہ کہ عدالت کو اس حد تک مجبور اور احتساب کو اس قدر انتقام بنادیا جائے گا، پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ اسی طرح آفات پہلے بھی آتی رہیں لیکن یہ کہ پاکستان آفتستان بن جائے گا، ہمارے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔
ایک طرف کورونا، دوسری طرف پہلے سے تباہ شدہ معیشت، تیسری طرف ٹڈی دَل کے حملے، اللہ رحم کرے، اب سیلابوں کا دور آنے والا ہے لیکن ان سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اصلاح کی کوئی کوشش ہوتی نظر آرہی ہے اور نہ کوئی امید۔ پہلے صرف حکومتیں خطرے میں ہوتی تھیں، اب نظام خطرے میں ہے۔ پہلے صرف معیشت خطرے میں ہوتی تھی تو اب ملک خطرے میں ہے۔ پہلے صرف تبدیلی کا خطرہ ہوا کرتا تھا جبکہ اب کی بار خانہ جنگی کا خطرہ ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ جو کچھ ہے، اس کے ہم سب ذمہ دار ہیں۔ جس کے ہاتھ میں طاقت ہوتی ہے، اس نے تو اس کا استعمال کرنا ہی ہوتا ہے۔ طاقت کی نفسیات یہ ہے کہ اس کے حامل لوگ اپنے آپ کو عقلِ کل سمجھتے ہیں اور ان کی انائیں ہمالیہ سے بلند ہوتی ہیں۔
دوسرے سے اختیار چھیننا اور اپنی مرضی مسلط کرنا انسانی جبلت کا حصہ ہے لہٰذا طاقتوروں نے جو کچھ کرنا تھا، سو کرنا تھا لیکن کیا یہ جو کچھ ہورہا ہے کیا اس کی ذمہ دار مسلم لیگ نہیں؟ اگر دورِ اقتدار میں میاں نواز شریف بادشاہوں والا رویہ نہ اپناتے۔
اگر وہ سندھ میں پیپلز پارٹی کو ان لوگوں کے سپرد نہ کرتے، جن کے ہاتھوں پھر خود رخصت ہوئے، اگر وہ احتساب کا منصفانہ نظام بناتے، اگر سی پیک کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال نہ کرتے، اگر پارلیمنٹ کو اہمیت دیتے اور چند خوشامدیوں کے نرغے میں آکر اپنے آپ کو طیب اردوان نہ سمجھ بیٹھتے تو کیا یہ سب کچھ ہو سکتا تھا؟ آج بھی قوم سمجھنے سے قاصر ہے کہ مسلم لیگ(ن) کی سیاست کیا ہے۔
ایک ہاتھ قدموں میں اور دوسرا گریبان میں۔ ایک بھائی مفاہمت اور دوسرا بھائی مخاصمت۔ یہ تھی الیکشن سے پہلے مسلم لیگ (ن) کی سیاست جبکہ اب اصل حکومت کے ساتھ مفاہمت اور ظاہری کے ساتھ مخاصمت، اس کی سیاست بن گئی ہے۔ میاں نواز شریف ڈیل کرکے خاموش بھی ہیں لیکن انقلابی دِکھنے کی بھی کوشش کررہے ہیں۔
مریم نواز انقلابی بننے کی بھی کوشش کررہی ہیں اور قوم کو تباہیوں کے سپرد کرکے چپ کا روزہ بھی رکھ لیا ہے۔ الیکشن کے بعد بھی مسلم لیگ(ن) اس لئے پارلیمنٹ میں آکر بیٹھ گئی کہ اسے امید تھی کہ پنجاب کی حکومت اسے دے دی جائے گی اور اب بھی اس انتظار میں ہے کہ کہیں سے اس پر نظر کرم ہو جائے۔
پیپلز پارٹی بھی آج چیخ و پکار کررہی ہے لیکن کون نہیں جانتا کہ اس مصنوعی سیاسی بساط کو بچھانے میں پیپلز پارٹی کی قیادت برابر کی حصہ دار ہے۔ کس کوعلم نہیں کہ کس طرح پیپلز پارٹی نے باپ پارٹی کے ساتھ مل کر سینیٹ انتخابات میں ووٹوں کی خریداری کی۔
اسی نظام کی خاطر ہی زرداری صاحب نے سینیٹ کی چیئرمین شپ موجودہ بساط بچھانے والوں کو دی۔ ڈیل ہی کی خاطر سندھ لیا اور اپنی مجبوریوں کی وجہ سے نہ صرف پارلیمنٹ میں بیٹھ کر انتخابات کو سندجواز فراہم کیا بلکہ صدارت بھی پی ٹی آئی کی جھولی میں ڈالی۔
کون نہیں جانتا کہ اپنے آپ کو بچانے، مخالفین کو پھنسانے اور کسی کو خوش کرنے کیلئے انہوں نے جسٹس جاوید اقبال کو چیئرمین نیب بنانے کے لئے کیا کچھ نہیں کیا۔ اسی طرح ہم اہلِ صحافت جس بری طرح استعمال ہوئے اور جس طرح ہم نے انتقام، لالچ یا خوف کی وجہ سے صحافتی اخلاقیات کی دھجیاں بکھیر کر ملک اور نظام کو اس مقام تک پہنچانے میں مہرے کا کردار ادا کیا، وہ کس سے پوشیدہ ہے۔
کورونا، ٹڈی دَل اور دیگر آزمائشوں کی صورت میں شاید رب کائناب ہمیں جھنجھوڑنا چاہتا ہے لیکن افسوس کہ اس کے بعد بھی ہمارے ضمیر جاگنے کا نام نہیں لے رہے۔ انسانوں کے خوف کی جگہ اللہ کا خوف نہیں لے رہا اور ہم بدستور اس جعلی دنیا میں رہ رہے ہیں۔
حسب سابق مصنوعی سیاست اور مصنوعی صحافت کا سلسلہ زوروں پر ہے۔ پارلیمنٹ کے اجلاس ہورہے ہیں۔ روزانہ ٹاک شوز ہورہے۔ پریس کانفرنسز ہورہی ہیں۔ ہر کسی کو علم ہے کہ حقیقت کیا ہے لیکن اصل حقائق کا نہ پارلیمنٹ میں ذکر ہوتا ہے، نہ میڈیا میں اور نہ عدالت میں۔ سچ تو یہ ہے کہ یہاں سرے سے سیاست ہی نہیں ہورہی۔ نہ بلاول سیاست کررہے ہیں، نہ نواز شریف، نہ شہباز شریف اور نہ کوئی اور۔ یہ صرف ہلچل ہے اور اپنی اپنی بقا کی کوششیں ہیں جس کوہم نے سیاست کا نام دے رکھا ہے۔
اسی طرح یہاں کوئی صحافت نہیں ہورہی ہے۔ بظاہر ہم ٹاک شوز بھی کررہے ہیں، کالم بھی لکھ رہے ہیں اور خبریں بھی دے رہے ہیں لیکن اصل ایشوز کی طرف ہم جا بھی نہیں سکتے۔ اسی طرح عدالتیں لگتی ہیں، وکیل دلائل دے رہے ہیں اور عدالتی کارروائیوں کی رپورٹنگ بھی ہورہی ہے لیکن سب جانتے ہیں کہ قانون کی بالادستی ہے اور نہ انصاف کہیں ہوتا نظر آرہا ہے۔ یوں مصنوعی نظام میں رہ کر بحیثیت مجموعی ہم بزدل اور منافقت کے شکار انسانوں کا ہجوم بن گئے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ اللہ کی رحمتوں نے ہم سے منہ موڑ لیا ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔