24 جولائی ، 2020
پانی تعلیم کا نعم البدل ہے نہ تعلیم پانی کا متبادل لیکن ڈیرہ اسماعیل خان سمیت صوبہ خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع میں ہزاروں بچے ایسے ہیں جنہیں تعلیم اور پانی میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔
ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل کلاچی کے گاؤں ہتھالہ، تحصیل درابن اور پہاڑپور میں ہزاروں بچے بچیاں اسکول کے اوقات میں حصول تعلیم کے بجائے تلاشِ آب و جاں کرتے ہیں۔
دامانی علاقوں میں زیرِ زمین پانی بہت گہرا یا کڑوا ہے، بجلی اور مشینری ٹھیک ہونے کی صورت میں سرکاری ٹیوب ویل کا محفوظ پانی بارانی جوہر یا کنواں نما پرانے ٹینکوں میں ڈال کر غیر محفوط کردیا جاتاہے۔
ایسے میں بچے اور بچیاں پانی کی تلاش میں سرکرداں رہتے ہیں۔
اس حوالے سے مقامی افراد کا کہنا ہےکہ یہاں بسنے والے افراد مزدوری کرتے ہیں اور بچے دن بھر پانی بھرتے رہتے ہیں۔
اسکول جانے کی عمر میں پانی بھرنے والی بچیوں کا کہنا ہے کہ گھڑا بہت بھاری ہے جسے اٹھانے میں تکلیف ہوتی ہے لیکن کیا کریں پانی بھرنے والا کوئی نہیں۔
ایک مقامی شخص نے ایک بچے کے حوالے سے بتایا کہ جب سے چلنا پھرنا شروع کیا ہے بس پانی بھر رہا ہے، اس بچے کا باپ مزدوری کرتا ہے، بھائی بکریاں چراتا ہے اور یہ پانی بھرتا ہے۔
پاکستان کو بنے سات دہائیاں گزریں، سات سالہ بچہ پانی بھرتے بھرتے 70 کا ہوگیا، لیکن مشقت ابھی جاری ہے، تبدیلی کیا آتی 70 سالوں میں انداز بدلہ نہ طریقہ کار۔
شکر ہے یہاں زمانہ کورونا کے باوجود حکومتی عملداری نہیں ورنہ ایس او پیز اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے حکومت کو پانی بھر بھر کر خود لوگوں کے گھروں میں پہنچانا پڑتا۔