05 اگست ، 2020
مجھے معیشت کا پہیہ بھی کہا جاتا ہے معاشی حب بھی۔ کوئی مجھے منی پاکستان کہتا ہے تو کوئی پورٹ سٹی مگر اس وقت حال یہ ہے کہ بارش آتی ہے تو میں آدھا ڈوب جاتا ہوں مگر کوئی شرم سے نہیں ڈوبتا۔ کہتے ہیں یہاں ایک سمندر بھی ہے مجھے تو آبادی کا سمندر نظر آتا ہے یہاں جب بارش آتی ہے تو نالے سمندر کا منظر پیش کررہے ہوتے ہیں۔
یہاں ہے ایک سمندر ’’سی ویو‘‘ پر مگر چند سالوں میں شاید نہ سی رہے نہ ویو کیونکہ آہستہ آہستہ اس کو پیچھے دھکیل کر بلند و بالا عمارتیں کھڑی کی جارہی ہیں۔ آبادی میری ویسے تو ڈھائی تین کروڑ سے کم نہیں مگر یہ اسلام آباد والے ماننے کو تیار نہیں۔ یہ وہی سوچ ہے جس نے مجھ سے دارالحکومت ہونے کی شناخت لے لی۔ جب سے میں اپنے وارث کی تلاش میں ہوں۔
ہاں کبھی تھا میں شہر اور شہری بھی میرا خیال ایسے رکھتے تھے جیسے اپنے گھروں کا۔ جب وہ گھر میں صفائی کرتے، دھوتے تو میری سڑکیں بھی دھوتے تھے۔ اب تو بھائی لوگوں نے مجھے دھوکر رکھ دیا ہے۔ یہاں اچھی کشادہ سڑکیں ہوتی تھیں، معیاری نہیں تو مناسب ٹرانسپورٹ بشمول سرکلر ریلوے تھی۔ پانی بھی مل جاتا تھا اور نالے صاف ہونے کی وجہ سے گٹر نہیں ابلتے تھے۔ روشن خیالوں کا شہر تھا تو کلچر میں برداشت بھی تھی۔ سینما میں سب کے مطلب کی فلمیں لگتی تھیں۔
کلب والوں کے لئے مناسب انتظام بھی تھا۔ پرانے علاقے مناسب طریقے اور پلاننگ سے بنے ہوتے تھے جیسا کہ ناظم آباد، گرومندر، نمازیوں کی بڑی تعداد مساجد جاتی تھی۔ شہر کا ماسٹر پلان بھی تھا اور پلان پر عمل کرنے والے بھی۔پھر لوگ ناراض ہوگئے مجھ میں سیاسی جراثیم دیکھ کر۔
دارالحکومت تبدیل کرنے پر احتجاج کیا تو سمندر میں دھکیلنے کی دھمکی دی گئی۔ میں سہم سا گیا کہ میں نے ایسا کیا کہہ دیا۔ ایک سوال ہی تو کیا تھا کہ بھائی یہ کیوں کر رہے ہو۔ آج تک اس کا جواب تو نہیں ملا مگر سزا مسلسل مل رہی ہے۔
تھا کبھی میں ایک شہر جہاں اچھے پلے گرائونڈ اور پارک ہوتے تو ایک بارہ دری بھی تھی۔ اب بھی موجود ہیں مگر حالت ٹھیک نہیں۔ ایسے ہی تو نہیں اس شہر نے نامور کھلاڑی پیدا کئے۔ معیاری تعلیمی ادارے ہوتے تھے۔ غیرملکی سیاح آیا کرتے تھے کیونکہ میرے پاس پورٹ بھی ہے جہاں ایک زمانے میں دساور سے جہاز لنگر انداز ہوتے تو صدر اور زینب مارکیٹ والوں کی عید ہوجاتی تھی۔
آپ کو ہر طرف غیرملکی سیلر خریداری کرتے نظر آتے۔غرض یہ کہ میں نے اس ملک کو معاشی طور پر بھی بہت کچھ دیا اور سیاست، ثقافت، کھیل اور تعلیم کے میدان میں بھی بڑے نام دئیے۔ یہ میرے قائد کا بھی تو شہر تھا۔ پرانے لوگوں کو یاد ہوگا جب قائد اعظم ایک آزاد ملک میں پہلی بار یہاں آئے تھے کیسا استقبال ہوا تھا۔
کاش وہ کچھ سال زندہ رہ جاتے تو ہمارے درمیان آج تک پایا جانے والا بہت سا کنفیوژن دور ہوجاتا کہ ہم نے ویلفیئر اسٹیٹ بننا تھا کہ سیکورٹی اسٹیٹ۔ خیر اب تو مجھے فکر ان کے مزار کی ہے۔ ڈر ہے کسی دن میں سو کر اٹھوں تو اخبار میں ’’قائد پلازہ‘‘ کا اشتہار نہ آجائے جس پر لکھا ہو۔
’’اپنے فلیٹ سے قائد کے مزار کا نظارہ دیکھیں‘‘ کچھ اچھے بھلے لوگوں نے مزار کے کئی کلو میٹر تک بڑی عمارتوں پر پابندی لگائی ہوئی ہے مگر اب آہستہ آہستہ اس کی خلاف ورزیوں کی اطلاعات ہیں۔
ایک بار میں نے پوچھا سب مجھ سے ناراض کیوں رہتے ہیں تو جواب آیا تم سوال بہت کرتے ہو۔ تم سے کہا گیا ایوب کو ووٹ دو تم نے فاطمہ جناح کو ووٹ دے ڈالا۔ اپنے آپ کو قابل سمجھتے ہو۔ بیورو کریسی پر قبضہ جمایا ہوا ہے، میرٹ کی بات کرتے ہو۔ یہ سب تم سے اب چھین لیا جائے گا۔ میری طاقت میرا قلم تھا۔
قابلیت تھی میں غصے میں کہیں اور ہی نکل پڑا۔ایک زمانہ تھا جب غنڈے، بدمعاش بھی اپنے علاقے کی ماں بہنوں کا خیال رکھتے تھے۔ کچھ بڑے جوئے کے اڈے ہوتے تھے۔ جیسا کہ اسلم ناتھا کا نام بڑا مشہور تھا۔ بس ان کو صرف پولیس والوں کو بخشش دینا پڑتی تھی بعد میں سویلین لوگوں نے بھی مانگنا شروع کردیا جس کو بھتہ کا نام دیا گیا۔
پھر تو یہ ہر دوسرے گروپ کے چندہ جمع کرنے کا ذریعہ بن گیا۔ ڈان مافیا یا انڈر ورلڈ کا نام80ء کی دہائی سے پہلے نہیں سنا تھا اب تو وہ حکومتوں میں ہوتے ہیں۔ جنرل ضیاء نے جو میرے ساتھ کیا وہ تو کوئی دشمن بھی کسی کے ساتھ نہ کرے۔بڑے شہروں میں لوگ نوکریوں اور کاروبار کی تلاش میں آتے ہیں۔ ایسے ہی کچھ خواب لئے لاکھوں لوگ 1947ء میں آئے تھے۔ مگر ہر چیز کی تیاری کی جاتی ہے۔
جب شہر ترقی کرنے لگا تو دور دراز سے لوگوں نے آنا شروع کردیا۔ مگر مجھے کسی نے اس کے لئے تیار نہیں کیا۔ زمینوں کی بندر بانٹ تو خیرمرحوم نظامی صاحب کے زمانے سے ہی شروع ہوگئی تھی مگر پھر علاقوں پر قبضے شروع ہوگئے۔ حسین ڈی سلوا کی خوبصورت پہاڑی آبادی میں تبدیل ہوگئی۔ پوش علاقوں کی تقسیم بھی بغیر کسی پلاننگ سے ہوئی۔
آج بھی شہر میں پانی نہیں پانی کی تقسیم مسئلہ ہے۔ ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں پچھلے تیس سالوں میں رہائشی اور کمرشل پلازہ بغیر کسی نکاسی آب، گیس اور بجلی کنکشن کے کھڑے کردئیے گئے۔ نالوں پر عمارتیں بنادی گئیں۔ گٹر لائن اور پائپ لائن ملا دی گئیں۔
میں کراچی ہوں۔ اب تو پتا بھی نہیں کہاں سے شروع ہوتا ہوں اور کہاں ختم۔ کاش میں بھی لندن اور نیویارک ، ٹوکیو یا بیجنگ کی مانند ہوتا۔ کاش میری اپنی بلدیہ ہوتی۔ میرا میئر پورے شہر کا میئر ہوتا۔ میں درجنوں سوک ایجنسیوں میں تقسیم نہ ہوتا۔ کاش میرے تعلیمی ادارے، اسپتال، کھیلوں کے میدان، پارک پرانی شکل میں واپس آ جائیں۔ شہر کی سڑکیں آج بھی کشادہ ہیں مگر مافیاز نے تجاویزات کھڑی کر دی ہیں۔
سروس روڈ اور فٹ پاتھ پر بھی قبضے ہیں۔ جن کی یہ سب ٹھیک رکھنے کی ذمہ داری ہے انہوں نے یہ کام کئے ہوتے ہیں۔بس میرے پاس ایک ’’سمندر‘‘ بچا ہے جس میں ڈوب جانے کا دل چاہتا ہے کیوں مجھے تباہ کرنے والے تو نہ شرم سے ڈوبیں گے نہ ندامت میں سر جھکائیں گے۔ شاید اسی خوف سے کہ کہیں میں ڈوب نہ جائوں بھائی لوگوں نے سمندر کوپیچھے کرکے بڑی بڑی عمارتیں بنانا شروع کردی ہیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔