Time 21 اگست ، 2020
بلاگ

ریاست ماں کو شرمندہ مت کرو

فوٹو فائل—

کہتے ہیں کہ ریاست ماں کےجیسی ہوتی ہے لیکن جب تربت ،بلوچستان سے تعلق رکھنے والے حیات بلوچ جو کراچی میں زیر تعلیم تھا، کی گولیوں سے چھلنی خون میں لت پت لاش زمین پر پڑی دیکھی اور لاش کے پاس نوجوان کے ماں باپ اپنے بیٹے کے اس طرح بہیمانہ انداز میں قتل کیے جانے پر بیٹھے تڑپتے دیکھے تو دل میں خیال پیدا ہوا نجانے اس نوجوان نے مرتے وقت اور اس کے ماں باپ نے اپنے بچے کے اپنے سامنے مارے جانے پر ریاست ماں کے بارے میں کیا سوچا ہو گا؟؟

ابھی تک کی اطلاعات کے مطابق ایف سی کے اہلکار نے علاقہ میں ایف سی کی دو گاڑیوں پر بم حملہ کے بعد اس نوجوان کو اس کے ماں باپ کے سامنے مار ڈالا۔خبروں کے مطابق ایف سی نے متعلقہ اہلکار کو ایف آئی آر کے درج ہونے کے بعد پولیس کے حوالہ کر دیا۔

وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے حیات بلوچ کے قتل کے واقعہ پر انکوائری کا مطالبہ کیا ہے۔ شیریں مزاری کے بیان کا شکریہ لیکن ایسے واقعات تو پہلے بھی ہوئے لیکن ریاست ماں نے مرنے والوں کے ساتھ انصاف کیا نہ مارنے والوں کے ساتھ۔ اس واقعے پر تو ابھی تک ایک ہی وزیر نے آواز اٹھائی اور انصاف کا وعدہ کیا۔

کوئی ڈیڑھ دو سال پہلے ساہیوال میں تین معصوم بچوں کے سامنے اُن کے والدین، بڑی بہن اور ایک رشتہ دار کو دن دہاڑے مین شاہراہ پر سرکاری اہلکاروں نے گولیوں کی بوچھاڑ سے بے رحمی سے مار ڈالا اور کہا کہ سب دہشت گرد تھے۔ جو سرکاری اہلکاروں نے کہا وہ سب جھوٹ تھا۔

جو مارے گئے وہ سب کے سب بے گناہ تھے۔ سوچتا ہوں وہ تین چھوٹے بچے جن کے سامنے اُن کے ماں باپ اور بڑی بہن کو مارا گیا کیا وہ کبھی ریاست ماں پر بھروسہ کریں گے کیوں کہ اُس وقت بھی ایک نہیں کئی وزیروں بلکہ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ نے بھی وعدہ کیا کہ ذمہ داروں کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے گی، اُنہیں نشان عبرت بنایا جائے گیا۔

لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا کیوں کہ تمام کے تمام اہلکار جنہوں نے دنیا کے سامنے یہ قتل کیے سب کو باعزت بری کر دیا گیا۔ وہاں موجود افراد نے اپنے موبائل سے اس واقعہ کی وڈیوز بھی بنائیں، گواہ بھی موجود تھے لیکن بہت کچھ ہوتے ہوئے بھی ساہیوال واقعہ کے ذمہ داروں کو عبرت کا نشان نہ بنایا جا سکا۔ یہی کچھ کراچی میں نقیب اللہ محسود کے ساتھ ہوا۔

وہ بھی بے گناہ تھا، بے قصور تھا۔ اُسے بھی دہشت گرد کا نام دے کر مار دیا گیا لیکن بعد میں ثابت ہو گیا کہ سب جھوٹ تھا۔ اس واقعہ میں ملوث پولیس ایس پی رائو انوار کے ساتھ جس لاڈلے انداز میں تحقیقات ہوئیں اور جس طرح اُس کے ساتھ انصاف کا مذاق ہوتے پورے پاکستان نے دیکھا ، اُس پر بھی ریاست ماں کے کردار پر سوال اُٹھے۔

2011 میں کراچی میں ہی رینجرز اہلکاروں کے ہاتھوں ایک نوجوان سرفراز کا قتل ہوا جس کی وڈیو میڈیا پر وائرل ہوئی۔ اُس وقت کے چیف جسٹس نے اس واقعہ پر سوموٹو لیا، ذمہ داروں کو گرفتار کر لیا گیا، اُن کا ٹرائل ہوا اور اُنہیں عمر قید کی سزا بھی دے دی گئی۔

لیکن 2018 میں اُس وقت کے صدر ممنوں حسین نے سزا پانے والے رینجرز اہلکاروں کی سزا کو اپنے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوے معاف کر دیا اور یوں ریاست ماں کے کردار پر ایک بار پھر سوال اٹھا دیے گئے اور اُس کو ایک بار پھر شرمندہ کر دیا گیا۔ 9/11کے بعد جب اس ملک میں دہشتگردی میں بے پناہ اضافہ ہوا تو اس کے ساتھ ساتھ گمشدہ افراد اور ماورائے عدالت قتل کے واقعات بھی اتنے بڑھ گئے کہ رو ز کا معمول بن گئے۔

مارے جانے والوں میں کتنے معصوم تھے اور کتنے قصور وار اس کی کسی کو کوئی خبر نہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ کئی بڑے بڑے دہشتگرد اور مجرم عدالتوں سے چھٹ جاتے ہیں جس کی وجہ سے ماورائے عدالت قتل کا رواج یہاں بڑھ گیااور اسے ریاست کی unwritten پالیسی سمجھا گیا۔ قانون بدلیں، عدالتی نظام کو ٹھیک کریں.

پولیس اور دوسری سیکیورٹی ایجنسیوں کے تحقیقاتی نظام کو بہتر بنائیں کیوں کہ اس سلسلہ کو بند ہونا چاہیے ورنہ نجانے کتنے بے قصور دہشتگردی کے جھوٹے الزام کی بنیاد پر مرتے رہیں گے۔جو سرکاری اہلکار بے قصور افراد کو مارنے کے الزام میں پکڑے جائیں اُنہیں سخت سے سخت سزا دی جائے تاکہ ریاست ماں کی محبت سب کو ملے اور اس پر اعتبار قائم رہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔