27 اگست ، 2020
اسلام آباد ہائی کورٹ نے چڑیا گھر میں جانوروں کی ہلاکت کے کیس میں وزیر مملکت برائے موسمیاتی تبدیلی زرتاج گل اور وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے ماحولیات ملک امین اسلم کو شوکاز نوٹس کا جواب داخل کرانے کے لیے 25 ستمبر تک مہلت دے دی۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے مرغزار چڑیا گھر میں جانوروں کی ہلاکت کے کیس کی سماعت کے دوران استفسار کیا کہ جن کو شوکاز نوٹس جاری کیے تھے کیا ان کے جواب جمع ہو گئے؟
چیئرمین کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) عامر علی احمد اور سینیٹر مشاہد حسین سید نے تحریری جوابات جمع کرائے جب کہ وزیر مملکت زرتاج گل اور وزیراعظم کے معاون خصوصی ملک امین اسلم کی طرف سے سلمان اکرم راجا عدالت میں پیش ہوئے۔
اس دوران چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ جانوروں کی ہلاکت افسوس ناک ہے،اچھے کام کا سب کریڈٹ لینا چاہتے ہیں مگر کچھ غلط ہو توکوئی ذمہ داری قبول نہیں کرتا،جن کی ذمہ داری ہے وہ چھوٹے ملازمین پر ذمہ داری ڈال رہے ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ یہ اس بات کی عکاسی کرتا ہےکہ ملک کوکیسے چلایاجارہا ہے، ایک واقعہ ہوا ہے تو کسی کو تو اس کی ذمہ داری لینی چاہیے، ایک چھوٹے سے ملازم پر ذمہ داری ڈال کر اس پر پرچہ کرا دیتے ہیں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ چڑیا گھر کے بہت سارے جانور تو غائب بھی ہو گئے، یہ بہت شرمندگی کی بات ہے، جانوروں کا کھانا بھی چوری ہوتا رہا، ابھی تو بہت سی باتیں ہم نے فیصلے میں نہیں لکھیں،جو جانور تکلیف میں ہیں پہلے ان کی مشکلات کو دور کرنے کا بندوبست کریں،اس بات پر بھی معاونت کریں کہ جانوروں کی ہلاکت کے ذمہ داروں کو کم از کم 2گھنٹے انہی مرنے والے جانوروں کے پنجروں میں کیوں قید نہ رکھا جائے؟
چیف جسٹس نے واضح کیا کہ ابھی عدالت نے توہین عدالت کا فارمل شوکاز نوٹس جاری کرکے کسی کو ذاتی حیثیت میں طلب نہیں کیا، پہلے اس بات کا تعین کیاجائے گا کہ واقعے کا کون ذمہ دار ہے؟ پھر ذاتی حیثیت میں طلبی ہو گی۔
عدالت نے کہا کہ اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کے جن ارکان نے بھی تک شوکاز نوٹسز کے جواب جمع نہیں کرائے وہ آئندہ سماعت سے قبل تحریری جواب داخل کریں جب کہ عدالت نے زرتاج گل اور ملک امین اسلم کے وکیل کی جانب سے درخواست پر شوکاز نوٹس کا جواب داخل کرانے کے لیے 25 ستمبر تک مہلت دے دی۔
خیال رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے بنیادی ضروریات اور سہولیات کی عدم موجودگی کے باعث وفاقی دارالحکومت کے مرغزار چڑیا گھر کے تمام جانوروں کو محفوظ پناہ گاہوں میں منتقل کرنے کا حکم دیا تھا تاہم اس پرعملدرآمد کے لیے آگ لگا کر جانوروں کی منتقلی کی کوشش کی گئی اور اس کوشش میں شیر اور شیرنی ہلاک ہوگئے تھے۔
اس واقعے پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے 11 اگست کو شوکاز نوٹسزجاری کرنے کا حکم دیا تھا۔