21 ستمبر ، 2020
جیسے یہ آپ کے علم میں کہ توشہ خانہ یا تحفہ خانہ میں اپنے حکمرانوں کو باہر کے سربراہوں سے ملے تحفے جمع کروائے جاتے ہیں، ویسے ہی آپ کے علم میں یہ بھی ہوگا کہ حریص حکمران طبقے نے ایسا قانون بنا رکھا کہ ان تحفوں کو اونے پونے داموں خرید کر گھر لے جا سکیں، آج اسی مضحکہ خیز قانون کی آڑ میں لٹ مار کی چند جھکیاں حاضرِخدمت، دیکھئے، حادثاً، اتفاقاً بڑے عہدوں پر پہنچے لوگ کیسے چھوٹی وارداتیں ڈالتے ہیں، یاد رہے یہ چند جھلکیاں، ورنہ توشہ خانہ پر تو ایک کتاب لکھی جا سکے۔
بات نواز شریف سے شروع کرتے ہیں، 1997، وزیراعظم نواز شریف ترکمانستانی وفد کا دیا 4بائی دو فٹ سائز کا کارپٹ 50روپے ادا کرکے گھر لے گئے، 1997، قطر کے ولی عہد کا دیا بریف کیس نواز شریف 875روپے ادا کرکے لے گئے، 1999، سعودی عرب سے ملنے والی ساڑھے 42لاکھ کی مرسڈیز گاڑی میاں صاحب 6لاکھ 36ہزار میں لے اُڑے، 1999، سعودی حکومت کی دی ایک لاکھ 5ہزار کی رائفل میاں صاحب سوا 14ہزار میں گھر لے گئے، ابوظہبی حکمراں نے نواز شریف، کلثوم نواز، مریم نواز کو تین قیمتی گھڑیاں تحفے میں دیں، نواز شریف، کلثوم نواز کی گھڑیاں تو توشہ خانہ میں جمع کروا دی گئیں مگر مریم نواز تحفے میں ملنے والی 3لاکھ کی گھڑی 45ہزار میں لے گئیں، یہاں یہ بتاتا چلوں۔
ان تحفوں کی اصل قیمت تو بہت زیادہ ہوتی ہے، اپنے سرکاری بابو مطلب ایک بیوروکریٹ ٹیم پہلے ان تحفوں کی من مرضی کی قیمت لگاتی ہے اور پھر اس قیمت کا کچھ فیصد ادا کرکے حکمراں وہ تحفہ گھر لے جاتے ہیں، مثال کے طور پر ابو ظہبی حکمران کی طرف سے ملی گھڑی 10لاکھ سے زیادہ مالیت کی تھی مگر اپنی بیوروکریٹ ٹیم نے اسکی قیمت 3لاکھ لگائی اور مریم نواز یہ گھڑی 45ہزار میں لے گئیں۔
اب بات پاکستان، دبئی، لندن میں ذاتی گھروں اور اس وقت 4ملکوں کے مشیر شوکت عزیز کی، موصوف ہمیشہ یہی بتاتے رہے کہ میں تو وہ وزیراعظم جو تنخواہ بھی نہیں لیتا مگر یہ 26کروڑ کے 11سو تحفوں کی ساڑھے 7کروڑ قیمت لگوا کر صرف ڈھائی کروڑ میں یہ سب تحفے لے اُڑے، کیسے، ایسے، شوکت عزیز گورنر نیپال کا دیا اسکارف 25روپے میں گھر لے گئے، شہزادہ چارلس، انکی اہلیہ کا دیا جیولری بکس 2ہزار روپے ادا کرکے لے گئے، ٹونی بلیئر، ان کی اہلیہ کا تحفے میں دیا ہینڈ بیگ شوکت عزیز 3سو روپے میں لے گئے، چینی وزیراعظم کی جانب سے تحفے میں ملنے والے پانڈے کو 15سو روپے میں لے گئے، چینی حکمراں کے دیے جیولری بکس کو ساڑھے 6ہزار ادا کرکے گھر لے گئے۔
بنگلا دیشی وزیراعظم کا دیا موتیوں کا ہار 5ہزار میں لے گئے، سری لنکن وزیراعظم کا دیا نیکلس شوکت عزیز 5ہزار میں لے گئے، بحرین کے ولی عہد سے ملی تلوار شوکت عزیز 9ہزار میں لے اُڑے، شوکت عزیز نے سونے کی انگوٹھیاں، درجن بھر نیکلس، 18قیراط سونے کے زیورات، طلائی سکوں، موتیوں سے لیکر ٹائیوں، بنیانوں، جرابوں اور حتیٰ کہ نیکریں تک نہ چھوڑیں، اب ایک جھلک وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی، سعودی بادشاہ نے 2011میں 18لاکھ کی گھڑی، سونے کا پین، خنجر، کف لنکس تحفے میں دیے، گیلانی صاحب یہ سب سامان 2لاکھ 83ہزار میں لے گئے۔
گیلانی صاحب کی اہلیہ 22لاکھ کا جیولری سیٹ 3لاکھ میں گھر لے گئیں، اب بات آصف زرداری کی، 2009، صدر زرداری کو معمر قذافی نے 2کروڑ 73لاکھ کی بی ایم ڈبلیو گاڑی تحفے میں دی، زرداری صاحب 41لاکھ میں یہ گاڑ ی لے گئے، 2009، یو اے ای کے ولی عہد کی طرف سے تحفے میں ملنے والی پونے گیارہ کروڑ کی لیکسز گاڑی ایک کروڑ 61لاکھ میں لے اڑے، زرداری صاحب نے صرف 3گاڑیوں میں ہی 11کروڑ بچا ئے۔
اب آجائیں، صدر پرویز مشرف پر، موصوف پونے 4کروڑ کے تحفے 55لاکھ میں لے گئے، 2002،امریکی صدر نے لیدر بیگ تحفے میں دیا، 18سو قیمت لگی، مفت گھر لے گئے، 2002، امریکی صدر نے جیولری بکس تحفے میں دیا، 15سو قیمت لگی، مفت گھر لے گئے، ترکمانستان کے صدر نے پاکٹ واچ، کارپٹ تحفے میں دیے، 75روپے میں گھر لے گئے، 2007، بیگم پرویز مشرف کو سعودی حکمراں نے ساڑھے 37لاکھ کا جیولری سیٹ دیا، یہ 5لاکھ 80ہزار ادا کر کے لے گئے، سعودی حکمراں نے ہی بیگم صاحبہ کو ایک کروڑ 52لاکھ کا جیولری سیٹ، نیکلس، بریسلٹ تحفے میں دیے، یہ سوا 22لاکھ میں سب کچھ لے گئے۔
امریکی وزیردفاع رمز فیلڈ نے صدر پرویز مشرف کو دو پستول تحفے میں دیے، یہ سوا 9ہزار فی پستول ادا کرکے چلتے بنے، یہاں یہ یاد رہے، ان دوپستولوں میں سے ایک پستول پرویز مشرف نے امیر مقام کو تحفے میں دیا، اسی لئے امیر مقام کو مشرف کا پستول بدل بھائی کہا جائے، یہ علیحدہ بات مسلم لیگ ن میں موجود امیر مقام ان دنوں بھُولے سے بھی پرویز مشرف کا نام نہیں لیتے۔
یاد آیا، ایک بار دوست رؤف کلاسرا اور عامر متین نے چوہدری شجاعت حسین سے پوچھا ’’شریف برداران کی واپسی کے بعد آپکو سینکڑوں لیگی چھوڑ گئے، کیا کسی کے چھوڑ جانے پر دکھ ہوا‘‘ چوہدری شجاعت بولے ’’امیر مقام کے چھوڑ جانے کا دکھ ہوا‘‘ پوچھا گیا ’’امیرمقام کا دکھ کیوں‘‘ چوہدری صاحب کا جواب تھا ’’امیر مقام ایک روز دوپہر کو میرے گھر آئے اور کہا چوہدری صاحب میری ماں نے کہا ہے، مرتے مرجانا مگر چوہدریوں کا ساتھ نہ چھوڑنا، چوہدری صاحب اب آپ کا اور میرا ساتھ آخری سانسوں تک‘‘ یہ کہہ کر چوہدری صاحب لمحہ بھر رکے اور پھر بولے ’’اسی شام ہم نے ٹی وی پر دیکھا کہ امیر مقام پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مسلم لیگ ن میں شمولیت کا اعلان کر رہے تھے، دکھ یہ، امیر مقام نے ہمیں چھوڑنا تھا چھوڑ جاتے مگر درمیان میں ماں کو تو نہ لاتے‘‘۔
بات کہاں سے کہاں نکل گئی، ذکر ہورہا تھا توشہ خانہ کا، آپ نے لٹ مار کی چند جھلکیاں دیکھیں، باقی پھر کبھی سہی، کہنا یہ، جو بنیانیں، جرابیں، ٹائیاں اور نیکریں بھی نہیں چھوڑتے، ان کے حوالے ملک کرنا، باقی آپ کی مرضی، باربار لٹیں، جتنی بار لٹیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔