Time 08 اکتوبر ، 2020
بلاگ

پاکستان کے غدار

فائل فوٹو

جب بلوچ قوم پرست یعنی میر غوث بخش بزنجو، سردار عطاللہ مینگل اور نواب خیر بخش مری وغیرہ ’’غدار‘‘ تھے تو تب نواب اکبر بگٹی محبِ وطن تھے۔ پہلے وزیر مملکت، پھر گورنر اور پھر وزیراعلیٰ بنائے گئے۔ 

جنرل ضیاء الحق نے سندھ کے ’’غدار‘‘ ذوالفقار علی بھٹو سے نمٹنے کی خاطر بزنجو، مینگل اور مری کو تاحکم ثانی محب وطن ڈکلیئر کیا لیکن 1999کے بعد جنرل پرویز مشرف اقتدار میں آئے تو انہوں نے نواب اکبر بگٹی کو بھی ’’غدار‘‘ ڈکلیئر کیا۔ 

پختونوں کے لیڈر خان عبدالغفار خان اور خان عبدالولی خان اور ان کے اجمل خٹک جیسے ساتھی روز اول سے ’’غدار‘‘ تھے لیکن جنرل محمد ضیاء الحق کے دور میں مختصر وقت کے لئے انہیں محب وطن ڈکلیئر کیا گیا تاہم ان کے اقتدار کے آخری ایام تک ان کی حیثیت پھر بھی مشکوک رہی۔ وہ پورے محب وطن تب ڈکلیئر ہوئے جب جنرل ضیاء الحق کی پیداوار میاں نواز شریف کے ساتھ حکومت میں شامل ہوئے۔ 

اجمل خٹک نے چونکہ کابل میں جلاوطنی کاٹی تھی اور شاعر کی حیثیت سے پختونستان کے گن بھی بہت گائے تھے، اس لئے وہ خصوصی ’’غدار‘‘ تھے تاہم جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالنے کے بعد جس سیاسی لیڈر کو سب سے پہلے شرفِ ملاقات سے نوازا، وہ اجمل خٹک ہی تھے۔ پھر جب عوامی نیشنل پارٹی طالبان کے مقابلے پر اُتر آئی اور کسی بھی دوسری جماعت کے لیڈروں سے زیادہ پاکستان کی خاطر اپنے سینے چھلنی کروائے تو ان کی حب الوطنی پر یقین ہونے لگا لیکن جب سے وہ عمران خان کی مخالف صف میں کھڑی ہے تب سے اس کے قائدین کی حب الوطنی پر پھر سوال اُٹھائے جارہے ہیں۔ البتہ اب اُن کے حصے کے ’’غداری‘‘ کے سرٹیفکیٹ پی ٹی ایم کے پختونوں کو مل رہے ہیں۔

سندھی جی ایم سید نے قیامِ پاکستان کی جدوجہد میں کلیدی کردار ادا کیا تھا لیکن قیامِ پاکستان کے بعد کئی دہائیوں تک ’’غدار‘‘ رکھنے کے بعد جنرل ضیاء الحق نے انہیں عارضی طور پر محب وطن ڈکلیئر کیا کیونکہ تب ان کی پوری توجہ سندھی ذوالفقار علی بھٹو کو ’’غدار‘‘ ثابت کرنے پر تھی۔ بھٹو کو پھانسی دے دی گئی تو پھر ان کی بیٹی بےنظیر بھٹو اور ان کے ساتھیوں کو ’’غدار‘‘ ثابت کیا جاتا رہا اور اس مقصد کے لئے میاں نواز شریف اور جماعت اسلامی کو بھرپور طریقے سے استعمال کیا گیا۔ اسی کی دہائی تک تین قومیتیں پنجابی، اردو بولنے والے اور کشمیری ’’غداری‘‘ سے بچے ہوئے تھے۔ 

کشمیریوں کی تو خیر الگ حیثیت تھی لیکن ’’غدار‘‘ سندھی بےنظیر بھٹو کے مقابلے میں کراچی کے اندر الطاف حسین کی قیادت میں اردو بولنے والوں کو جبکہ پنجاب میں میاں نواز شریف کو لانچ کیا گیا۔ الطاف حسین کی جماعت کی نے سیاست میں تشدد کو عام کیا لیکن پھر بھی جنرل پرویز مشرف نے اُن کی بھرپور سرپرستی کی اور یوں وہ حد سے آگے بڑھنے لگے، چنانچہ جنرل راحیل شریف کے دور میں ان کو بھی غدار ڈکلیئر کیا گیا۔  یوں الطاف حسین وغیرہ کے ذریعے مہاجروں کی ’’غداری‘‘ کا کوٹہ بھی پورا ہو گیا۔ 

پنجاب باقی بچا تھا لیکن اب میاں نواز شریف کو باقاعدہ ’’غدار‘‘ بنانے کی کوششوں کا آغاز کردیا گیا ہے اور عملی اقدامات اٹھاکر پنجاب سے تعلق رکھنے والے درجنوں مسلم لیگی رہنمائوں کے خلاف ’’غداری‘‘ کے مقدمات قائم کردیے گئے۔ یوں پنجاب کو بھی اپنے حصے کی ’’غداری‘‘ کا کوٹہ مل گیا۔ 

البتہ سونامی سرکار نے حد یوں کردی کہ آزاد جموں و کشمیر کے منتخب وزیراعظم راجہ فاروق حیدر کے خلاف بھی پنجاب کے ایک تھانے میں غداری کا مقدمہ درج کر لیا گیا۔ ایک اور طبقہ ثقہ محب وطن سمجھا جاتا تھا اور غداری یا حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ عنایت کرنے کے جملہ حقوق بھی اس کے پاس تھے لیکن سونامی سرکار میں ان تک بھی ’’غداری‘‘ کا سلسلہ دراز ہوا۔

جب اس ملک میں ہر طرف ’’غدار‘‘ ہی ’’غدار‘‘ ہیں اور کوئی پتا نہیں کہ جو چند ایک آج محب وطن ہیں، کل ان کو بھی ’’غدار‘‘ ڈکلیئر کردیا جائے تو پھر کیوں نہ اس ملک کا نام تبدیل کر دیا جائے۔ 

سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن کی کہانی میں پہلے کالم میں لکھ چکا ہوں کہ کس طرح عمران خان صاحب نے ان کو بلا کر حکم دیا تھا کہ وہ جج ارشد ملک کے خلاف پریس کانفرنس کرنے والی مریم نواز اور اُن کے ساتھ بیٹھے تمام مسلم لیگیوں پر آرٹیکل 6کا مقدمہ بنا دیں اور جب اُنہوں نے انکار کیا تو اُن کو فارغ کردیا گیا۔ 

اس وقت پولیس، عدالتوں اور میڈیا کا سارا وقت غداری اور حب الوطنی کے فیصلوں کی مشق میں ضائع ہورہا ہے۔ اس لئے میری تجویز ہے کہ عمران خان، فروغ نسیم کے ذریعے قانون بنا کر آرڈیننس جاری کردیں کہ عمران خان، فروغ نسیم اور زلفی بخاری وغیرہ کے سوا اس ملک کے باقی سب سویلین غدار ہیں۔

بہتر ہوگا کہ ایک قانون اور بنا دیا جائے کہ جس میں عمران خان کی طرف سے ہندوستان، برطانیہ اور پاکستان کے اندر فوج اور اس کی ایجنسیوں کے خلاف کی گئی تقاریر اور انٹرویوز کو دیکھنا یا دکھانا بھی غداری قرار دیا جائے۔ اگر یہ دوسرا قانون نہ بنایا گیا تو سونامی دور کے معیارات اور پیمانوں کے مطابق جلد یا بدیر خود عمران خان بھی ’’غدار‘‘ قرار پائیں گے۔ 

ویسے تاریخ کا سبق اور مکافات عمل کا قانون بھی یہی ہے کہ مہرہ بن کر جس بھی لیڈر نے دوسروں پر غداری کے الزامات لگائے، آنے والے وقت میں وہ ضرور خود اس کا شکار بنا۔ میرا تو ایمان ہے کہ ایک نہ ایک دن عمران خان کے ساتھ وہی کچھ ہوگا جو اس وقت نواز شریف کے ساتھ ہو رہا ہے، اس لئے وہ ابھی سے احتیاطی تدابیر اختیار کریں تو ان کے حق میں بہتر ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔