14 اکتوبر ، 2020
حکومت کو بالآخرشدید تنقید اور عوامی دباؤ کے نتیجے میں مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف کے علاوہ (ن) لیگ کی دیگر سینئر قیادت اور وزیراعظم آزاد کشمیر سمیت 42 افراد کے خلاف درج غداری کے مقدمے سے اُن کے ناموں کو خارج کرنا پڑا۔
اِس سے قبل وزیراعظم اور وفاقی وزراء سمیت پی ٹی آئی کی سینئر قیادت اِس بات سے مسلسل انکار کرتی رہی کہ غداری کے اِس مقدمے سے اُن کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
واضح رہے کہ یہ مقدمہ ایک شخص کی مدعیت میں رات کی تاریکی میں درج کیا گیا تھا جو بعد ازاں تحریک انصاف کا جرائم پیشہ سرگرم کارکن نکلا جس کے خلاف مختلف تھانوں میں مقدمات درج ہیں۔
پاکستان کی 73سالہ تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا کہ آزاد کشمیر کے منتخب وزیراعظم سمیت ملک کے دو سابق وزرائے اعظم اور 3 سینئر فوجی جرنیلوں کے خلاف غداری کا مقدمہ قائم کیا گیا، سب سے افسوسناک پہلو یہ تھا کہ غداری کی اِس ایف آئی آر میں آزاد کشمیر کے منتخب وزیراعظم کو بھی نامزدکر دیا گیا جس سے نہ صرف آزاد کشمیر کے بلکہ دنیا بھر میں موجود کشمیریوں کی دِل آزاری ہوئی۔
وزیراعظم آزاد کشمیر پر غداری کا لیبل لگانے والوں نے ایک لمحہ کیلئے یہ بھی نہ سوچا کہ وہ کس پر غداری کا الزام لگارہے ہیں اور اِس کے کیا نتائج سامنے آسکتے ہیں؟ گوکہ آخر وقت تک حکومت غداری کے مقدمے سے لاعلمی کا اظہار کرتی رہی مگر بعد ازاں یہ بات کھل کر سامنے آئی کہ غداری کا یہ مقدمہ حکومتی ایما پر درج کیا گیا اور مقدمہ درج ہونے سے قبل آئی جی پنجاب نے رات گئے وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری کو فون کرکے مقدمے سے متعلق آگاہ کیا۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ آئینِ پاکستان کے تحت بغاوت کا مقدمہ صرف وفاقی یا صوبائی حکومت کی مدعیت میں ہی درج کروایا جا سکتا ہے۔
حکومت مخالفین کے خلاف بغاوت یا غداری کے مقدمات قائم ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں اور کسی کو غدار قرار دینے کا یہ سلسلہ نیا نہیں، قیامِ پاکستان کے کچھ عرصے بعد یہ سلسلہ قائداعظم کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح سے ہوتا ہوا خان عبدالغفار خان، اُن کے بیٹے خان عبدالولی خان، نواب خیر بخش مری، میر غوث بخش بزنجو، عطاء اللہ مینگل، اکبر بگٹی، محمود خان اچکزئی اور اب نواز شریف کے ساتھ کشمیر کے وزیراعظم تک جاپہنچا ہے۔
شاید یہی وجہ تھی کہ مقدمے میں نامزد مسلم لیگ (ن) کے کچھ قائدین نے غداری کے اِس مقدمے کو اپنے لیے ’’میڈل‘‘ قرار دیا جبکہ مقدمے میں نامزد سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، سابق گورنر سندھ محمد زبیر اور مسلم لیگ (ن) کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل عطاء تارڑ جب اپنی گرفتاری دینے لاہور کے تھانہ شاہدرہ پہنچے تو اُنہیں بتایا گیا کہ غداری کا مقدمہ درج کرنے والے ایس ایچ او اور دیگر عملے کا تبادلہ کردیا گیا ہے۔
خوش آئند بات یہ ہے کہ غداری کے مقدمے میں نامزد آزاد کشمیر کے وزیراعظم راجہ فاروق حیدر نے بڑے تحمل اور بردباری کا ثبوت دیا، اگر وہ بھی کشمیری قیادت کے ساتھ اپنی گرفتاری دینے تھانہ شاہدرہ لاہور پہنچ جاتے تو یہ صورتحال نہ صرف حکومت کیلئے دنیا بھر میں جگ ہنسائی کا سبب بنتی بلکہ حکومت کو مسئلہ کشمیر کے معاملے پر بھی عالمی سطح پر ہزیمت اٹھانا پڑتی۔
حکومت کا اپوزیشن کے خلاف بلاجواز مقدمات قائم کرنے کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایف آئی اے کے سابق ڈائریکٹر جنرل بشیر میمن حال ہی میں یہ انکشاف کرچکے ہیں کہ ’’وزیراعظم نے اُنہیں بلاکر حکم دیا تھا کہ جج ارشد ملک کے خلاف پریس کانفرنس کرنے پر مریم نواز اور اْن کے ساتھ بیٹھے تمام مسلم لیگیوں پر آرٹیکل 6 کا مقدمہ بنائیں لیکن جب انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کیا تو اُنہیں فارغ کردیا گیا۔‘‘
قابل افسوس بات یہ ہے کہ وزیراعظم کے معاون خصوصی شہباز گل اور وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان نے مقدمے کی سنگینی کو نظر انداز کرتے ہوئے لاہور پولیس کے سربراہ پر زور دیا کہ وہ ایک ٹیم تشکیل دے کر مقدمے میں نامزد افراد کے خلاف فوری طور پر کارروائی شروع کریں، یہ سوچے بغیر کہ اس سے حکومت کو کچھ حاصل ہونے کے بجائے مزید ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
آج سے قبل جن افراد پر غداری کا لیبل لگایا گیا تھا، اُن کا تعلق سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا سے تھا مگر اب غداری کا لیبل لگنے والے صوبوں میں پنجاب اور آزاد کشمیر بھی شامل ہوگیا۔
وزیراعظم آزاد کشمیر اور (ن) لیگ کی سینئر قیادت پر بغاوت کا مقدمہ بنانا حکومت کی احمقانہ حرکت تھی، وقت آگیا ہے کہ کسی محب وطن کو غدار ڈکلیئر کرنے کا یہ سلسلہ بند کیا جائے۔
غداری کے مقدمے میں نامزد سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے اِس ملک کی ترقی و خوشحالی میں جتنا حصہ ڈالا، شاید ہی کسی اور وزیراعظم کے حصے میں آیا، زیادہ اچھا ہوتا کہ حکومت اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے مقدمے میں نامزد افراد سے معذرت کرتی اور دیگر لوگوں کے ساتھ 3 بار منتخب ہونے والے وزیراعظم میاں نواز شریف کا نام بھی مقدمے سے خارج کرتی۔
غداری کا یہ مقدمہ پوری قوم کیلئے باعث تشویش بنا اور قوم یہ قبول کرنے کو تیار نہیں کہ امریکا کے شدید دباؤ کے باوجود بھارت کے 5 ایٹمی دھماکوں کے بدلے 6 ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے والا، ملک بالخصوص کراچی سے دہشت گردی ختم کرنے والا، ملک کو اندھیروں سے نکالنے والا اور موٹر ویز کا جال بچھانے والا جہاں آج پاکستان ایئر فورس کے طیارے جنگی صورتحال میں اترنے کی مشق کررہے ہیں، ملک اور قوم کا غدار نہیں ہو سکتا۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔