بلاگ
Time 02 نومبر ، 2020

آگ بھڑکانے والے نا سمجھ!

فائل فوٹو

بہتر تھا سابق اسپیکر قومی اسمبلی اور ن لیگ کے رہنما ایاز صادق قومی اسمبلی میں دیے گئے اپنے متنازعہ بیان پر معافی مانگ لیتے لیکن یہاں تو باقی لیگی رہنما بھی اُن کے ساتھ کھڑے ہو گئے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز کو بھی اِس بیان پر کوئی اعتراض نہیں بلکہ وہ بھی چاہتے ہیں کہ ایاز صادق اِس بیان پر ڈٹے رہیں۔ 

مولانا فضل الرحمٰن تو ایاز صادق کے گھر پہنچ گئے، جہاں میڈیا سے بات کرتے ہوئے ایاز صادق نے کہا کہ وہ کس بات پر معافی مانگیں؟ دوسری طرف پی ٹی آئی کی پوری کوشش ہے کہ ن لیگ کو بالخصوص بھارت کے ساتھ جوڑا جائے اور ایک کے بعد ایک رہنماء سے یہ بات کروائی جائے کہ ن لیگ کا سارا بیانیہ دراصل پاکستان کی فوج کے خلاف ہے اور یہ بات اتنی تواتر سے کی جائے کہ اِس پر سب کا یقین ہو جائے، ورنہ کم از کم یہ تو ضرور ہو کہ فوج اور ن لیگ آمنے سامنے آ جائیں۔ 

ن لیگ کے رہنماؤں کو دیکھیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ اِس کوشش میں ہیں کہ پی ٹی آئی کی بات کو سچ ثابت کیا جائے۔

دوسری طرف سابق جرنیلوں کی ٹی وی ٹاک شوز میں بات سنیں تو وہ بھی ایک پوری کہانی سناتے ہیں تاکہ ثابت کریں کہ نواز شریف واقعی پاکستان اور فوج مخالف ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ 

عوامی سطح پر بھی یہی بحث اور تقسیم پائی جاتی ہے، آدھے اِدھر اور آدھے اُدھر، لاہور میں تو ایاز صادق کے ساتھ ساتھ فواد چوہدری کی تصویروں والے پوسٹر انڈین ایجنٹس کے طور پر مختلف مقامات پر لگا دیے گئے ہیں۔ 

یہ بہت خطرناک کھیل ہے جسے ہوا دینے کے بجائے ٹھنڈا کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ اِس کے نتائج بہت خطرناک ہو سکتے ہیں، ماحول کو بہتر بنانے کے لیے سب سے اہم ذمہ داری تو حکومت یعنی پی ٹی آئی کی بنتی ہے لیکن وہ تو اپنے سیاسی فائدے کے لیے آگ بھڑکا رہی ہے اور اُس کی کوشش ہے کہ اپنے سیاسی مخالف یعنی ن لیگ کو فوج کا دشمن ثابت کرکے اُسے کچل دیا جائے۔ 

وزیراعظم اور حکومت تو گھر کے بڑے کا کردار ادا کرتی ہے جو ہر قسم کی شورش، لڑائی، جھگڑے کو ختم کرنے کی خواہاں ہوتی ہے کیونکہ اگر لڑائی جھگڑے ہوں گے، فتنہ فساد بڑھے گا تو گھر کیسے چلے گا؟ افسوس کہ ن لیگ بھی ٹکراؤ کے ایسے موڈ میں ہے کہ بلاسوچے سمجھے اُسی رستے پر چل پڑی ہے جس پر اُسے حکمران جماعت چلانا چاہتی ہے، ورنہ جو کچھ ایاز صادق نے کہا، اُس کا دفاع کیسے کیا جا سکتا ہے؟

بعض لیگی رہنما تو دفاع سے آگے بڑھ گئے اور اُس متنازعہ بیان کو سپورٹ کرنے لگے جس نے میری دانست میں پاکستان کے لیے شرمندگی کا سامان پیدا کیا، ن لیگ اگر اِس غلطی کو تسلیم کرنے کے بجائے اُس پر ڈٹ رہی ہے تو ایک تیسرا فریق یعنی سابق جرنیل، جن کی رائے کو عمومی طور پر اسٹیبلشمنٹ کی رائے سمجھا جاتا ہے، وہ بھی ایک Extreme View لئے ہوئے نظر آتے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش میں ہیں کہ نواز شریف ایک انڈین ایجنٹ ہیں۔ 

جس طرف دیکھیں غصہ اور جذبات نظر آ رہے ہیں اور کوئی ایک لمحے کے لیے بھی یہ سوچنے کو تیار نہیں کہ سیاسی تفریق کی بنیاد پر اگر حب الوطنی اور غداری کا فیصلہ کیا جائے گا تو پھر نقصان صرف اور صرف پاکستان کا ہی ہوگا۔ 

یہ ایک حقیقت ہے کہ نواز شریف ہوں، عمران خان ہوں، بلاول بھٹو ہوں یا کوئی دوسرا ہو، موجودہ سیاسی تفریق اتنی گہری ہو چکی کہ یہ سیاسی رہنما جو مرضی کریں، اُن کے ووٹرز اور سپورٹرز اپنے اپنے رہنما کی ہر جائز و ناجائز بات کے پیچھے کھڑے نظر آتے ہیں۔ 

وہ عناصر جو بڑے شوق سے نواز شریف، مریم نواز وغیرہ کو انڈین ایجنٹ ثابت کرنے کے خواہاں ہیں، اُنہیں معلوم ہونا چاہئے یہ وہ آگ ہے جو اگر پھیل گئی تو سب کو جھلسا دے گی اور اِس کو قابو کرنا مشکل ہو جائے گا۔ 

اِس لیے میری سب فریقین سے گزارش ہے کہ ایک ایک قدم پیچھے ہٹیں، اپنی اپنی حکمتِ عملی کے بارے میں غور کریں اور ایسی صورتحال پیدا کرنے سے اجتناب کریں جس سے ملک میں ہر کسی کا نقصان اور فائدہ صرف دشمن کا ہو۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔