بلاگ
Time 12 نومبر ، 2020

میاں صاحب غصہ نہ کریں!

فائل فوٹو

مسلم لیگ ن کی ایک اہم شخصیت نے میری 11نومبر کو دی نیوز میں شائع ہونے والی خبر "Establishment is not averse to inter-institutional dialogue idea" پر مجھے موبائل پر ایک پیغام بھیجا جس میں لکھا تھا کہ ’’معذرت چاہتا ہوں، یہ خبر آپ سے لکھوائی گئی ہے‘‘۔

اِس پیغام پر میں ہنس پڑا اور سوچا کہ دیکھیں کہ کیسے ایک خبر کی بنیاد پر لوگ، جن میں ایسے افراد بھی شامل ہیں جو آپ کو اچھی طرح جانتے ہیں، خبر دینے والے صحافی کی Reputeپر سوال اُٹھا دیتے ہیں۔ اگر خبر کسی سیاسی رہنما، سیاسی پارٹی اور کسی بھی فرد یا ذمہ دار کے حق میں جا رہی ہو تو سب اچھا ورنہ خبر لکھنے والے کی نیت پر ہی سوال اُٹھا دیے جاتے ہیں۔

خبر اطلاع کی بنیاد پر دی جاتی ہے لیکن نجانے ن لیگ سے تعلق رکھنے والی اُس شخصیت نے کیوں سمجھ لیا کہ خبر لکھوائی گئی۔ میری خبر باوثوق ذرائع کے حوالے سے یہ تھی کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ پاکستان کے نظام کو آئینی طریقے سے چلانے کے لئے ڈائیلاگ کے خلاف نہیں۔

ایک ایسے ماحول میں جہاں تمام اسٹیک ہولڈرز کے درمیان ڈائیلاگ کی بات کی جا رہی ہے تاکہ ماضی کے تلخ تجربات سے سبق سیکھتے ہوئے ہر ادارے کو اُس کی آئینی حدود تک محدود کیا جائے اور ہر ادارہ اپنی ماضی کی غلطیوں سے سیکھتے ہوئے اُن غلطیوں کو دوبارہ نہ دہرانے کا عزم کرے اور پاکستان اور عوام کی خدمت کے لئے اپنے اپنے قانونی و آئینی کردار کو پوری محنت اور لگن سے ادا کرے، یہ ایک بہت اچھی خبر ہو گی، اگر اسٹیبلشمنٹ ایسے ڈائیلاگ کا حصہ بننے کے لئے راضی ہو۔

اگر ن لیگ یا نواز شریف موجودہ اسٹیبلشمنٹ سے ناراض اور نالاں ہیں تو اِس کا کیا مطلب ہوا کہ نہ کوئی ڈائیلاگ ہو اور نہ ہی ڈائیلاگ کی میڈیا خبر دے اور اگر کوئی ایسی خبر دے دے تو سمجھا جائے کہ وہ خبر صحافی سے لکھوائی گئی ہو گی؟

چلیں کوئی کیا سوچتا ہے، اُسے سوچنے دیں کیوںکہ کسی کی سوچ پر تو قدغن نہیں لگائی جا سکتی لیکن میری ذاتی رائے میں پاکستان کے مسائل اور اداروں کے درمیان نہ ختم ہونے والی لڑائیوں اور اس کے نتیجے میں ہر گزرتے دن کے ساتھ حالات کی خرابی کا حل لڑائی یا Confrontationنہیں بلکہ ایک ایسا ڈائیلاگ ہے جو چھپ کر نہیں بلکہ اعلان شدہ ہونا چاہئے اور جس کا مقصد نہ تو کسی سیاسی جماعت یا اُس کے رہنماؤں کے ساتھ ڈیل کرنا ہو، نہ ہی یہ کام اسٹیبلشمنٹ سے تعلق رکھنے والے کسی بھی فرد کے ذاتی فائدہ کے لئے ہو۔

اِس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ سات دہائیوں کے دوران پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کا کردار بہت متنازعہ رہا جس کو ہر حالت میں درست ہونا چاہئے۔ اسٹیبلشمنٹ کا نہ تو سیاست سے کوئی تعلق ہونا چاہئے، نہ ہی اُس کو سول حکومتوں کو بنانے بگاڑنے میں کردار ادا کرنا چاہئے۔

یہ بھی ضروری ہے کہ آئینِ پاکستان کے مطابق پاکستان میں سویلین بالادستی ہونی چاہئے۔ سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارے مسائل کا حل صرف یہی ہے؟ ایسا نہیں ہے اور یہ ہمارے سیاستدانوں اور عدلیہ سمیت دوسرے اداروں کو بھی سمجھنا چاہئے۔

اسٹیبلشمنٹ ٹھیک ہو جائے لیکن سیاست دان اور سول حکومتیں اپنا رویہ نہ بدلیں تو کیا مسائل حل ہو جائیں گے؟ کیا کرپشن اور خراب طرزِ حکمرانی کا تعلق بھی اسٹیبلشمنٹ سے ہے؟ کیا یہ بات درست نہیں کہ اگر اِس ملک کی عدلیہ ٹھیک ہوتی تو نہ اسٹیبلشمنٹ اپنی حدود سے تجاوز کرتی اور نہ ہی سول حکومتیں عوام کی خدمت کی بجائے کرپشن، اقربا پروری اور نااہل حکمرانی کو اپنا حق سمجھتیں۔

اِس لئے اسٹیبلشمنٹ کو درست ہونا ہے تو سول حکومتوں کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ آئین اور قانون پر مکمل عمل کرتے ہوئے دن رات عوام کی خدمت کریں۔ یہ کہنا کہ الیکشن جیت کر پانچ سال کے لئے حقِ حکمرانی مل گیا اور اب جو مرضی کریں، کسی کو پوچھنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہونا چاہئے، ایسا نہ تو آئین کہتا ہے، نہ ہی اخلاقیات کا یہ تقاضا ہے۔

سول حکومتوں کو عدالتوں کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ، جسے ہر حکومت ربر اسٹمپ کے طورپر استعمال کرتی ہے، کو فعال بنانا ہوگا تاکہ اسمبلیاں اور اُن کی کمیٹیاں حکومت پر ایک مانیٹر یا Checkکا کردار ادا کریں اور اِس بات کو یقینی بنائیں کہ حکومت فعال انداز میں آئین و قانون کے مطابق عوام کی فلاح و بہود کے لئے دن رات کام کرے۔

جمہوریت کا راگ الاپنے والی سیاسی جماعتوں کو اپنے اندر جمہوریت لانا ہوگی تاکہ سیاسی جماعتیں مخصوص خاندانوں کی ڈکٹیٹر شپ سے آزاد ہوں اور وہی رہنما آگے آئیں جو عوام کی خدمت کے اہل ہوں۔

اِس کے ساتھ ساتھ بہت ضروری ہے کہ پاکستان کی عدلیہ کو ریفارم کیا جائے، اُس میں میرٹ اور اہلیت کی بنیاد پر ججوں کو تعینات کیا جائے اور اِس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ہماری عدلیہ بغیر کسی بیرونی دباؤ کے انصاف کے ساتھ فیصلے کرے اور عوام کے لئے جلد انصاف کو یقینی بنائے۔ تمام ادارے اپنی اپنی حدود میں رہ کر کام کریں، اُس کے لئے بھی عدلیہ کا کردار بہت اہم ہے، جو وہ ادا کرنے میں ناکام رہی اور جس کی وجہ سے ہمیں اِن حالات کا سامنا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ڈائیلاگ کون کروائے؟ اصولاً تو حکومت اور وزیراعظم عمران خان کو یہ کام کرنا چاہئے لیکن ایسا ہوتا ہوا مجھے ممکن نظر نہیں آتا۔ میری سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن سے درخواست ہوگی کہ وہ اِس اہم ذمہ داری کو پورا کرتے ہوئے تمام اسٹیک ہولڈرز کو ایک ساتھ بٹھائیں اور پاکستان کے مستقبل کا آئین کی منشاء کے مطابق تعین کریں۔

یہ بہت ضروری ہے ورنہ ٹکراؤ کی پالیسی نجانے پاکستان کو اور کتنا نقصان پہنچا دے۔ مجھے نواز شریف صاحب کے تازہ ٹویٹ سے اختلاف ہے کیوںکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اُنہوں نے سابق ترجمان پاک فوج میجر جنرل آصف غفور کے ایک غیرمناسب ٹویٹ ’’Notification Rejected‘‘، جسے بعد میں سول فوجی تنازعہ کے بعد واپس لے لیا گیا تھا، کا بدلہ لیتے ہوئے غصے میں فوج کی کراچی معاملہ پر انکوائری رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے ٹویٹ میں ’’Report Rejected‘‘لکھ کر پرانا بدلہ لے لیا۔

میری ذاتی رائے میں میاں صاحب کو غصہ سے نہیں بلکہ حکمت کے ساتھ بغیر جوش کے پاکستان کے مسائل کے حل کرنے میں اپنا رول ادا کرنا چاہئے


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔