Time 07 دسمبر ، 2020
پاکستان

اربوں روپے سالانہ کمانے والا قومی ادارہ بے شمار مسائل کا شکارکیوں؟

پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی سالانہ 180ارب روپے سے زیادہ کما رہی ہے،فوٹو: فائل

آج شہری ہوا بازی کا عالمی دن ہے اور شہری ہوا بازی کا قومی ادارہ پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) اس دن کو اپنی سالگرہ کے طور پر  بھی مناتا ہے۔

7 دسمبر 1982کو پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی قائم ہوئی اور ابتداء میں ہی اس ادارے کی بہترین پیشہ ورانہ کارکردگی کی بناء پر پاکستان نے شہری ہوا بازی کے شعبے میں عالمی سطح پر نمایاں مقام حاصل کرلیا۔

ایسے وقت کہ جب تمام ہی بڑے قومی ادارے نقصان اور قرضوں میں جکڑے ہوئے ہیں ،پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی سالانہ 180 ارب روپے سے زیادہ کما رہی ہے اور اس کا خالص منافع تقریباً 36 ارب روپے سالانہ ہے۔

تاہم ملک کے سب سے زیادہ منافع بخش اداروں میں سے ایک سول ایوی ایشن اتھارٹی آج اپنی تاریخ کے بدترین دور میں ہے، اپنے قیام کے 28 سال کے بعد بھی ایڈہاک ازم، کنٹریکٹ ازم اور ڈیپوٹیشن ازم کی وجہ سے پیروں پرکھڑے نہ ہو سکنے والی سول ایوی ایشن اتھارٹی اب عالمی پابندیوں کی بھی شکار ہوگئی ہے۔

سول ایوی ایشن اتھارٹی  پر اسٹیبلشمنٹ کے قبضے کے لیے جاری رسہ کشی کی بدولت ادارے میں کلیدی عہدے یا تو خالی ہیں یا پھر من پسند افسران ڈیپوٹیشن، ایڈیشنل چارج اور ایکٹنگ چارج یا پھر کنٹریکٹ پر تعینات ہیں۔

تین سال تک سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل کا عہدہ خالی رہا، عدالتی حکم پر گزشتہ ہفتے گورنر سندھ کے پرنسپل سیکرٹری اورگریڈ 21 کےافسر خاقان مرتضٰی کو ڈائریکٹر جنرل تعینات کیا گیا لیکن مطلوبہ قابلیت اور تجربہ نہ رکھنے کی وجہ سے اس تعیناتی کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا گیا۔

شہری ہوا بازی کی سرگرمیوں کو نظم وضبط میں رکھنے اور پائلٹس ، انجینیئرز اور ایوی ایشن سے متعلق عملےکو لائسنس کا اجراء کرنے والا اہم ترین شعبہ ریگولٹری دو سال سے سربراہ سے محروم ہے، ایک مکینکل انجینیئر کو ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ریگولٹری کا اضافی چارج دیا گیا ہے جنہیں ریگولیٹری کا کوئی تجربہ نہیں۔

ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل سی این ایس کا عہدہ دو سال سے خالی پڑا ہے ، ڈائریکٹر آپریشن کے خالی عہدے کا ایکٹنگ چارج ایک جونیئر افسر کے پاس ہے ، ڈائریکٹر ائیر ٹرانسپورٹ کے اہم ترین عہدے پر ڈیپوٹیشن پر ایک ایسا افسر تعینات ہے جسے کمرشل ایوی ایشن کا کوئی تجربہ نہیں۔

ڈائریکٹرکمرشل کے اہم ترین عہدے کا اضافی چارج ڈائریکٹر جنرل کے پی ایس کے پاس ہے، اس ناتجربہ کار افسر کو جعلی ڈگری کے الزام کا بھی سامنا ہے۔

اسی طرح ڈائریکٹر سیفٹی کوالٹی اینڈ منیجمنٹ سرویسز  ایس کیو ایم ایس ، ڈائریکٹر سی این ایس، ڈائریکٹر ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ کٹائی اور ڈائریکٹر ایچ آر جیسے اہم ترین عہدوں کا اضافی چارج جونیئر افسران کے پاس ہے۔

ڈائریکٹور یٹ آ ف فلائٹ اسٹینڈرڈ کا شعبہ پی آئی اے اور دیگر ائیرلائنز سے آئے پائلٹوں کے حوالے ہےکیوں کہ سی اے اے میں اس شعبہ کے لیے مطلوبہ قابلیت کے پائلٹ رکھے ہی نہیں گئے، سی اے اے کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا اضافی چارج ایک انجینیئر کے پاس ہے  کیوں کہ موجودہ بورڈ سیکرٹری سروسز ریگولیشن میں خلاف ضابطہ تبدیلوں کی مخالفت پر معطل ہیں۔

حد تو یہ ہے کہ اپنے قیام 1982 سے آج تک سول ایوی ایشن اتھارٹی کا اپنا کوئی افسر ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر ہی نہیں تعینات نہیں ہوا اور سی اے اے کے تمام ہی ڈائریکٹرجنرل پاکستان ائیرفورس سے ڈیپوٹیشن پر یا پھر سول سروسز سے تعینات رہے ہیں جب کہ کمرشل اور سول ایوی ایشن کا طویل تجربہ اور اعلٰی تعلیمی قابلیت رکھنے والے سول ایوی ایشن اتھارٹی کے اپنے افسران ترقی کی راہ دیکھتے ریٹائر ہوجاتے ہیں۔

مختصر یہ کہ پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی کو ڈائریکٹر جنرل سمیت تقریباً تمام ہی اہم عہدوں پر ڈیپوٹیشن ، ایڈیشنل چارج اور ایڈہاک پر کی گئی تعیناتیوں کی بنیاد پر چلایا جارہا ہے۔

ماہرین کاکہنا ہےکہ انٹرنشنل سول ایوی ایشن آرگنائزیشن (ICAO) اور  یورپی یونین سیفٹی ایجنسی (EASA) اور امریکا کے فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن FAA جیسے عالمی اداروں کی جانب سے پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی کا درجہ کم کرنے اور پاکستانی ائیرلائنز کے یورپ اور امریکا میں داخلے پر پابندی کی وجوہات یہی ہیں کہ پاکستان سول ایوایشن اتھارٹی کو شہری ہوا بازی کے بین لاقوامی معیارات کے مطابق چلنے نہیں دیا جا رہا۔

مزید خبریں :