بلاگ
Time 31 دسمبر ، 2020

کیا سیاست دانوں کی تربیت نہیں ہونی چاہئے؟

فائل:فوٹو

آج 2020 کا سورج غروب ہوتے ہوتے کتنے سورج۔ چاند۔ ستارے اپنے ساتھ لے کر تاریکیوں میں اتر جائے گا۔ ایک سال پہلے ہم نے اس دشمن جاں کا استقبال کتنے والہانہ انداز سے کیا تھا۔ ایک دوسرے کو ہم کتنی امیدوں کے ساتھ ’’نیا سال مبارک‘‘ کہہ رہے تھے۔ کسے خبر تھی کہ اس کی رہ گزر پر کتنی قیامتیں برپا ہیں۔ کتنے دانشور۔ ناول نگار۔ بیورو کریٹ۔ سیاسی قائدین 2020 ہم سے چھین کر لے گیا۔ کووڈ 19 نے کسی امیر کو بخشا نہ غریب کو۔

ترقی اور تہذیب کے دعویدار ممالک سب سے زیادہ اس کے شکار ہوئے۔ مجھے اور آپ کو تشویش بھی ہے اور حیرت بھی کہ اس وبا نے ترقی یافتہ ملکوں۔ جدید علوم۔ سائنس اور ٹیکنالوجی سے آراستہ معاشروں کو سب سے زیادہ متاثر کیا۔ ہمارے امراء اور رئوسا جن ممالک میں اپنا علاج کرانے جاتے تھے۔ امریکہ یورپ ان کے اسپتال۔ معالجین۔ نرسنگ ہومز میں ہی ہزاروں انسانوں کی سانس کی ڈور کیوں الجھی؟ ہماری یونیورسٹیوں کو اس اہم معاملے پر تحقیق کرنی چاہئے۔

2021 اپنی مٹھی میں کیا کیا سانحے لے کر آرہا ہے۔ اب تو یہ سوچ ہی کر دل لرز کر رہ جاتا ہے۔ لگتا ہے کورونا اب ہمارا جیون ساتھی بن گیا ہے۔ یاد کیجئے کہ جب پاکستان میں کورونا سے پہلی موت ہوئی تو واہگہ سے گوادر تک ایک سنسنی پھیل گئی تھی۔ اب کسی دن 80 کسی دن 70اس وبا کے ہاتھوں دم توڑتے ہیں۔ تو ہمیں جھرجھری تک نہیں آتی۔ ہم نے کورونا کے ساتھ جینا سیکھ لیا ہے۔ سیکھنے کا لفظ مناسب نہیں ہے۔ کیونکہ ہمارے ہاں سیکھنے کا کوئی تمدن ہے نہ روایت۔ ہم مجبور ہیں۔ ہر مصیبت یا محرومی کو اپنا مقدر سمجھ کر برداشت کرتے رہتے ہیں۔

وہ جو 22کروڑ جیتے جاگتے انسانوں کی زندگیوں کے معاملات اپنے ہاتھ میں لینا چاہتے ہیں۔ وہ تو کبھی کچھ سیکھنے کو ضروری نہیں سمجھتے۔ اپنی کسی کمپنی میں ایک کلرک بھی رکھنا ہو تو اس کی تعلیم۔ تجربہ۔ مہارت۔ عادتیں۔ مزاج پرکھتے ہیں۔ سرٹیفکیٹ دیکھتے ہیں۔ لیکن جب دالبندین سے کرتار پور تک کے رقبے۔ کروڑوں انسانوں ۔ زمینوں۔ کارخانوں۔ سرحدوں پر حکمرانی کے ارادے ہوں تو کسی قسم کی تعلیم۔ اہلیت۔ تربیت کی تصدیق نہیں کی جاتی۔ نسل در نسل غیر تربیت یافتہ نوجوان، بزرگ میری اور آپ کی تقدیر کا فیصلہ کرنے کے لئے مسند نشین ہوجاتے ہیں۔

گزشتہ تحریر میں ، میں نے فوج کے ہاں National Strategy Paper کی تیاری کا حوالہ دیا تھا۔ ایک سابق اعلیٰ سول افسر نے میری اصلاح کی اور کہا کہ یہ پیپر صرف فوجی تیار نہیں کرتے۔ اس میں سول افسر بھی شامل ہوتے ہیں۔ میں نے ان کے شکریے کے ساتھ اس معاملے پر مزید کچھ معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اتنا اہم اور حساس موضوع ہے کہ میرا جی چاہ رہا ہے کہ ایک مبسوط کتاب قلمبند کروں۔ پھر خیال آتا ہے کہ اسے پڑھے گا کون؟ بہرحال میں اس پر مزید مطالعہ کررہا ہوں۔ آپ بھی میری مدد کریں۔ میں تاریخ کا ایک ادنیٰ طالب علم رہا ہوں۔

اتنی حکومتیں گرتے اور بنتے دیکھ چکا ہوں۔ ان سیاسی اور غیر سیاسی مہموں۔ شب خونوں۔ جنرلوں کی طویل تاریک راتوں۔ ہمارے منتخب رہنماؤں کی طمع آزمائیوں کا مشاہدہ کرچکا ہوں تو کانپ جاتا ہوں کہ اب ایک اور مہم جوئی ہورہی ہے۔ ہمارے نوجوان۔ بزرگ۔ نئے پرانے سیاستدان پھر غیبی اشاروں پر اپنا وقت اور صلاحیتیں ضائع کررہے ہیں۔ کٹھ پتلیاں دوسروں کو کٹھ پتلیاں کہہ رہی ہیں۔

جمہوریت اور آمریت کا تضاد تو بیسویں صدی کا قصّہ ہے۔ اب تو تضاد اچھی اور خراب حکمرانی کا ہے۔ دنیا میں زندگی کو آسان سے آسان کرنے کے لئے تحقیق ہورہی ہے۔ قانون سازی ہورہی ہے۔

تربیت کے کورس وضع کیے جارہے ہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں میں فوج بھی تحقیق کرکے نظم و ضبط ۔ اسلحے کی تربیت۔ جدید ٹیکنالوجی میں نئے نئے سلیبس اختیار کررہی ہے۔ سول افسروں کی تربیت کے بھی اعلیٰ نظام مرتب کیے گئے ہیں۔ یہ سب کچھ قوم کا درد رکھنے والے قائدین کی نگرانی میں ہوتا ہے۔ یہ قائدین خود بھی تربیت حاصل کرتے ہیں۔ اپنے ارد گرد بھی ایسے ماہرین کو مشاورت کے لئے مامور کرتے ہیں۔

میں نے اس سلسلے میں جو معلومات حاصل کی ہیں ۔ تحقیق کی ہے۔ اس کا ایک کالم کی تنگنائی میں تو احاطہ نہیں کرسکتا۔ اس سلسلے کو ان شاء اللہ جاری رکھوں گا۔ ہمارا اصل مسئلہ تحقیق اور تربیت کا فقدان ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ اس کے ادارے اور مواقع نہیں ہیں۔ فوج اور سول دونوں میں یہ ادارے موجود ہیں۔ جمہوریت کے بہت سے عشاق کو یہ حقیقت ہضم نہیں ہوگی کہ فوج میں آگے بڑھنے بالخصوص بریگیڈیئر سے میجر جنرل۔ لیفٹیننٹ جنرل بننے کے لئے تربیتی کورس۔ امتحانات اور پیپر تیار کرنا لازمی ہیں۔ کوئی استثنیٰ نہیں ہے۔ یہاں کس قسم کے کورس ہوتے ہیں۔

کیا نصاب ہے اور کن امور پر تبادلہ خیال ہوتا ہے؟ یہ آئندہ ذکر کریں گے۔ فوج پہلے نیشنل ڈیفنس اسٹاف کالج میں یہ اہتمام کرتی تھی۔ اب نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں یہ تربیت دی جاتی ہے۔ اس میں سول افسروں کو بھی شرکت کی دعوت دی جاتی ہے۔ ہر سال ان میں سے کچھ شریک بھی ہوتے ہیں۔ اب یہ کورس Performance Managementکی سطح تک جا پہنچے ہیں۔

9مہینے کے اس تربیتی کورس میں پورے ملک کے مسائل۔ اور تمام شعبوں کے امور پر ارضی حقائق اور اعداد و شُمار کی بنیاد پر رپورٹیں مرتب ہوتی ہیں۔ فوجی افسر اس میں پوری مدت شریک رہتے ہیں۔ سول افسر تھوڑی تعداد میں آتے ہیں۔ پھر درمیان میں چھوڑ کر چلے بھی جاتے ہیں۔

سول افسروں کی تربیت کے لئے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ایڈمنسٹریشن اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ قائم ہیں۔ ان کے کورسز بھی بہت اہم اور جدید ترین انتظامی اہلیت کے حوالے سے ترتیب دیے گئے ہیں۔ با اثر سول افسر اس سے بچنے کے لئے استثنیٰ لے لیتے ہیں۔ یا وہ افسر آتے ہیں جنہیں کہیں اچھی پوسٹنگ نہیںملتی۔ یہاں سے تربیت پانے کے بعد بھی انہیں مرکزی عہدوں پر نہیں لیا جاتا۔

سول محکموں میں یہ مسئلہ بھی ہے کہ وہ جو کچھ این ڈی یو میں سیکھتے ہیں یا نیپا وغیرہ میں۔ انہیں اس پر عملدرآمد کی حیثیت میں نہیں رہنے دیا جاتا۔اس ملک میںحکومت سیاستدان ۔ بیورو کریٹ اور فوج کررہے ہیں ۔ فوج اور بیورو کریٹس کے لئے تربیتی ادارے موجود ہیں لیکن سیاستدانوں۔ ارکان پارلیمنٹ جو اہم ترین اور فیصلہ ساز مناصب پر ہیں۔

ان کی تربیت کے لئے کوئی ادارہ نہیں ہے۔ وہ اپنے لئے تربیت ضروری نہیں سمجھتے۔ حالانکہ آج کی دنیا میں حکمرانی مشکل ہوتی جارہی ہے۔اس لئے سیاستدانوں ۔ بیورو کریٹس اور فوج سب کو جدید ترین رجحانات اور انداز حکمرانی سے باضابطہ آگاہ ہونا چاہئے۔ صرف ملک کا مفاد پیش نظر ہونا چاہئے۔ آپ بتائیں کہ کیا سیاستدانوں کی تربیت نہیں ہونی چاہئے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔