بلاگ
Time 11 جنوری ، 2021

حکومت اور اپوزیشن اختلافات میں درپیش سیاسی چیلنجز

فوٹو: فائل

ملک کے سیاسی درجہ حرارت میں کمی کا امکان نہیں ہے کیوں کہ دو اہم سیاسی رہنما وزیراعظم عمران خان اور ن لیگ کے سربراہ نواز شریف اپنے سخت موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں اور اس کا دفاع کررہے ہیں جس کی وجہ سے کسی تیسرے فریق کے لیے بھی معاملہ ٹھنڈا کرنا مشکل ہوگیا ہے۔

تمام اپوزیشن رہنماؤں میں بشمول جو پی ڈی ایم میں شامل ہیں، وزیراعظم عمران خان کا بنیادی ہدف پہلے روز سے ہی نواز شریف اور ان کی جماعت ن لیگ ہے۔

وزیراعظم گو کہ اپوزیشن کے کسی دوسرے رہنما سے بھی ہاتھ ملانے سے اجتناب کرتے ہیں۔ تاہم، ذرائع کا کہنا ہے کہ جب بات نوازشریف پر آتی ہے تو وزیراعظم کے لیے یہ ناقابل برداشت ہوجاتا ہے۔ کچھ سال قبل شاید نوازشریف کے جذبات عمران خان سے متعلق ایسے نا ہوں لیکن آج وہ بھی اسی طرح کی سوچ رکھتے ہیں۔

یہ اب ذاتی عناد اور انا کے مسئلے کے سوا اور کچھ نہیں رہا۔ جہاں عمران خان کی حکومت نوازشریف کو لندن سے وطن واپس لاکر جیل میں ڈالنا چاہتی ہے تو نوازشریف نے بھی اپنے اہم رہنمائوں کے بتادیا ہے کہ وہ اپنی تمام کشتیاں جلا چکے ہیں اور وہ عمران خان حکومت اور اسٹیبلشمنٹ سے متعلق اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

ن لیگ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ نوازشریف اپنی پارٹی کو بتاچکے ہیں کہ وہ اپنے موقف پر کسی قسم کی لچک دکھانے کو تیار نہیں ہیں اور مذاکرات کا کوئی امکان نہیں ہے۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ نوازشریف کا پیغام واضح ہے کہ عمران خان حکومت کو جانا ہوگا۔ عوامی سطح پر نوازشریف اور ان کے پارٹی رہنما ایسا نہیں کہہ رہے مگر پس پردہ گفتگو میں یہ بات واضح طور پر کہی گئی ہے کہ نوازشریف کا اسٹیبلشمنٹ پر دبائو کا مقصد عمران خان حکومت ختم کرنا ہے۔

وہ سلیکٹڈ کو سلیکٹرز کے ذریعے ہٹانا چاہتے ہیں اور اسے ہی وہ اسٹیبلشمنٹ کی ماضی کی غلطی قرار دیتے ہیں جسے درست کرنے کی وہ بات کررہے ہیں۔تاہم، یہ سوچ پی ڈی ایم اور اس میں شامل جماعتوں بشمول ن لیگ کے موقف کے خلاف ہے۔ یعنی اسٹیبلشمنٹ کو سیاست سے باہر کرنا اور آئینی طریقے سے عمران خان حکومت ختم کرنا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے بھی سوشل میڈیا سے تعلق رکھنے والے افراد سے بھی اتوار کے روز یہی بات کی کہ پی ڈی ایم اور نوازشریف سول حکومت میں فوج پر اس طرح تنقید کررہے ہیں جیسے پہلے کبھی نہیں ہوئی۔ جس کا مقصد اسٹیبلشمنٹ پر دبائو ڈال کر ان کی حکومت گرانا ہے۔

یہ صورت حال اسٹیبلشمنٹ کے لیے بھی پریشان کن ہے، جس پر پی ڈی ایم اور ن لیگ کے رہنما شدید تنقید کررہے ہیں۔ پی ڈی ایم کا موقف ہے کہ عمران خان کو قوم پر مسلط کیا گیا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت بھی بار بار فوج کا نام اپنے دفاع میں سیاسی وجوہات کے باعث استعمال کررہی ہے۔ ایسی صورت حال میں جہاں نوازشریف اور پی ڈی ایم اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کررہے ہیں تاکہ وہ عمران خان حکومت ختم کرے، پی ٹی آئی حکومت اختیارات کی خواہاں ہے جو ان کی حکومت کی حمایت کرے۔

سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ مشکل صورت حال سے دوچار ہے۔ مبصرین کا اصرار تھا کہ اپوزیشن اور پی ٹی آئی بڑی سیاسی قوتیں ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کسی قسم کی تقسیم کا کردار ادا کرنا نہیں چاہتی، جس سے ادارے متنازعہ بنیں۔

مبصرین کا ماننا ہے کہ عمران خان اور نوازشریف کسی بڑے ادارہ جاتی مذاکرات کے حق میں نہیں ہیں، تاہم، یہی وہ راستہ ہے جو پیچیدہ سیاسی مسائل حل کرسکتا ہے، جس سے قوم شدید پریشان ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔