13 جنوری ، 2021
دنیا کی آبادی میں جس تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، اُس نے مجھ سمیت ہر شخص کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ آبادی میں ہوشربا اضافے کا اندازہ نئے سال کے موقع پر اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسیف کی حالیہ رپورٹ سے لگایا جا سکتا ہے جس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ صرف سالِ نوکے پہلے دن یکم جنوری کو دنیا میں 3لاکھ 71ہزار 500بچوں نے جنم لیا۔
یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق نئے سال کی آمد پر دنیا بھر میں بچوں کی پیدائش میں سرفہرست 10ممالک میں بھارت پہلے نمبر پر رہا جہاں 59ہزار 995، چین میں 35ہزار 615، نائیجریا میں 21ہزار 439، پاکستان میں 14ہزار 161، انڈونیشیا میں 12ہزار 336، ایتھوپیا میں 12ہزار 6، امریکہ میں 10ہزار 312، مصر میں 9ہزار 455، بنگلہ دیش میں 9ہزار 236اور جمہوریہ کانگو میں 9ہزار 640بچے پیدا ہوئے۔ اِس طرح پاکستان دنیا میں شرح پیدائش کے حساب سے چوتھے نمبر پر رہا جو یقیناً باعثِ تشویش ہے۔
دنیا آج بڑھتی ہوئی آبادی کے مسئلے سے دوچار ہے۔ 1800میں دنیا کی آبادی ایک ارب نفوس پر مشتمل تھی جو 130برسوں بعد 1930میں دگنی یعنی 2ارب ہو گئی اور پھر صرف 30برسوں میں بڑھ کر 3ارب ہو گئی، اِس طرح دنیا کی آبادی میں ہر 12برسوں میں ایک ارب افراد کا اضافہ ہورہا ہے اور آج دنیا کی آبادی 7.8ارب تک پہنچ چکی ہے جبکہ وسائل میں آبادی کے لحاظ سے اضافہ نہیں ہوسکا اور افسوس کہ اِن 7.8ارب انسانوں میں سے ایک ارب سے زائد افراد خالی پیٹ سونے پر مجبور ہیں۔ دنیا میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک چین ہے جس کی آبادی ایک ارب 43کروڑ، دوسرے نمبر پر بھارت ایک ارب 38کروڑ، تیسرے نمبر پر امریکہ 33کروڑ، چوتھے نمبر پر انڈونیشیا 27کروڑ، پانچویں نمبر پر پاکستان 22کروڑ، چھٹے نمبر پر برازیل 21کروڑ، ساتویں نمبر پر نائیجریا 20کروڑ، آٹھویں نمبر پر بنگلہ دیش 17کروڑ، نویں نمبر پر روس 15کروڑ اور 13کروڑ آبادی کے ساتھ میکسیکو دسویں نمبر پر ہے۔
گو کہ آبادی کے لحاظ سے پاکستان پانچویں نمبر پر ہے مگر نئے سال پر بچوں کی شرح پیدائش کے حوالے سے پاکستان چوتھے نمبر پر آچکا ہے جو ایک لمحہ فکریہ ہے۔ قیامِ پاکستان کے وقت ملک کی آبادی 4کروڑ نفوس پر مشتمل تھی تاہم 1981کی مردم شماری میں یہ آبادی بڑھ کر 8کروڑ اور 1998کی مردم شماری میں 14کروڑ نفوس تک جاپہنچی جبکہ تقریباً 20برسوں بعد 2017کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی 20کروڑ 77لاکھ سے تجاوز کرگئی۔ اِس طرح گزشتہ 6دہائیوں میں آبادی میں 5گنا اضافے کے ساتھ پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک بن چکا ہے اور اگر آبادی میں اِسی رفتار سے اضافہ ہوتا رہا تو وہ دن دور نہیں جب 2050تک پاکستان کی آبادی 30کروڑ تک جا پہنچے گی جس پر حکومت نے قابو نہ پایا تو مستقبل میں اِس کے بھیانک نتائج سامنے آسکتے ہیں۔
60کی دہائی میں آبادی کی منصوبہ بندی کیلئے ’’کم بچے خوشحال گھرانہ‘‘ جیسی مہم شروع کی گئی جسے مشرقی پاکستان کیلئے سمجھا گیا۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد آنے والی حکومتوں نے آبادی پر کنٹرول کیلئے کئی اقدامات کئے اور اس سلسلے میں بہبودِ آبادی کی وزارت بھی تشکیل دی گئی مگر یہ محکمہ واضح حکومتی پالیسی نہ ہونے کے سبب بے بس نظر آتا ہے اور ٹی وی چینلز و اخبارات میں ’’بچے دو ہی اچھے‘‘ جیسے اشتہارات پر پیسوں کا ضیاع کرکے اپنی ذمہ داریاں پوری کررہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت خطے میں پاکستان کی شرح آبادی سب سے بلند 2.0 فیصد ہے جبکہ اس کے مقابلے میں ایران میں 1.4فیصد، بھارت میں 1.2فیصد اور سری لنکا میں آبادی کی شرح 0.6فیصد ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں آبادی کی شرح تقریباً دگنی ہے۔
حیران کن بات یہ ہے کہ بنگلہ دیش کی شرح آبادی 1.1فیصد ہے جہاں سال نو پر 9ہزار 236بچے پیدا ہوئے جبکہ اس کے مقابلے میں پاکستان میں 14ہزار 161بچے پیدا ہوئے جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ بنگلہ دیش نے اسلامی ملک ہونے کے باوجود آبادی کنٹرول کرنے میں کافی حد تک کامیابی حاصل کی لیکن اس سلسلے میں ہمیں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔
حکومت کو چاہئے کہ تیزی سے بڑھتی آبادی کی روک تھام کیلئے اپنی پالیسی پر نظرثانی کرتے ہوئے خاندانی منصوبہ بندی کی وزارت ازسرنو تشکیل دے اور ایسے اقدامات اٹھائے جائیں جن کے تحت خاندانوں کی مالی امداد کو شرح پیدائش میں کمی سے مشروط کیا جائے اور کم بچے رکھنے والے خاندان کے سربراہ کو مراعات اور روزگار کی فراہمی میں ترجیح دی جائے تاکہ آبادی کے جن پر قابو پایا جاسکے۔ اس سلسلے میں بنگلہ دیش ماڈل سے سبق حاصل کیا جاسکتا ہے جس نے آبادی کنٹرول کرنے کیلئے مساجد اور علماء کی خدمات حاصل کیں جس کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوئے اور بنگلہ دیش شرح آبادی پر قابو پانے میں کامیاب رہا ۔
پاکستان کی آبادی میں ہوشربا اضافہ ایک ’’ٹائم بم‘‘ کی طرح ہے جس کے پھٹنے کی صورت میں پورا ملک تباہی سے دوچار ہو سکتا ہے کیونکہ ملک میں بڑھتی آبادی کیلئے تعلیم، صحت، پینے کا صاف پانی، ٹرانسپورٹ اور روزگار دستیاب نہیں لیکن اگر آبادی پر قابو نہ پایا گیا اور ملک کی آبادی اسی رفتار سے بڑھتی رہی تو مستقبل میں معاشی اور سماجی مسائل کے ساتھ ساتھ غربت اور بیروزگاری کے باعث بدامنی اور دہشت گردی جیسے بھیانک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔