Time 28 جنوری ، 2021
بلاگ

نام ریاستِ مدینہ اور کام…

فائل:فوٹو

وزیراعظم عمران خان ہمیشہ ریاستِ مدینہ کا خواب دکھاتے ہیں، وہ بار بار یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ پاکستانی معاشرہ اور ہماری نوجوان نسل کو اسلام پڑھایا جائے اور اسلامی ہیروز کے کارناموں اور اُن کی زندگیوں سے روشناس کروایا جائے۔

خان صاحب یہ بھی درست بات کرتے ہیں کہ مغربی اور بھارتی کلچر اور اُن کی فلموں، ڈارموں کو پاکستان میں دکھانا یا اُن کی نقالی کرنا نہ صرف ہمارے خاندانی نظام کو تباہ و برباد کر دے گا بلکہ ہماری معاشرتی اور دینی اقدار کو بھی شدید نقصان پہنچائے گا اور یہاں بھی مغرب اور بھارت کی طرح فحاشی و عریانی پھیلانے کا سبب بنے گا جو ہمارے لئے سراسر تباہی ہوگا۔

اتنی اچھی باتیں کرنے والے وزیراعظم کو چاہئے کہ یہ بھی دیکھیں کہ اُن کی اپنی حکومت، اُن کی اپنی جماعت کیا واقعی اُن کی سوچ کے مطابق اقدامات اٹھا رہی ہے یا سارے کا سارا زور صرف باتوں پر ہی ہے؟ کئی معاملات میں حقیقت میں جو ہو رہا ہے وہ نہ صرف عمران خان کی اِس سوچ کے مطابق نہیں بلکہ سو فیصد برعکس ہے۔

آج (بروز بدھ 27جنوری) کے جنگ اخبار میں ایک خبر شائع ہوئی جس کے مطابق پی ٹی آئی کی خیبر پختونخوا حکومت نے بھارتی فلموں کے دو اداکاروں دلیپ کمار اور راج کپور کے پشاور میں واقع آبائی گھروں کو خرید کر میوزیم میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے لئے کڑوروں روپے مختص کئے گئے ہیں۔

خبر کے مطابق اداکار راج کپور کے آبائی گھر کے مالک نے ڈیڑھ کروڑ روپے میں مکان فروخت کرنے سے انکار کردیا اور حکومت سے 2 ارب روپے کا مطالبہ کیا ہے۔ گزشتہ منگل کے روز ڈپٹی کمشنر پشاور کو دونوں مکانات کی خریداری کے لئے 24ملین روپے کی رقم جاری کر دی گئی ہے۔

خبر کے مطابق راج کپور کی پیدائش 1924 میں پشاور کے علاقہ ڈھکی نعلبندی کے ایک ہندو خاندان میں ہوئی تھی۔ دونوں تاریخی گھروں کو خریدنے کے بعد دوسرے مرحلے میں گھروں کی مرمت اور اُن کی اصلی حالت میں بحالی کا کام ہوگا اور آخری مرحلے میں بحالی پلان کے تحت گھروں کو میوزیم میں تبدیل کیا جائیگا۔

عمران خان جس بالی ووڈ کی مثالیں دے دے کر یہ کہتے ہیں کہ اُس نے بھارتی کلچر کو تباہ کیا، اُسی سے تعلق رکھنے والے دو فلمی اداکاروں، جن کی پیدائش پاکستانی میں ہوئی، کو ہیروز کا درجہ دے کر اُن کے گھروں کی خریداری اور اُنہیں میوزیم بنانے کے لئے قومی خزانے سے کروڑوں روپیہ خرچ کیے جا رہے ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ کیا اُس اسلام اور اُن اسلامی تعلیمات جن کا حوالہ بار بار وزیراعظم عمران خان دیتے ہیں، کے مطابق کسی فلمی اداکار کو ایک اسلامی معاشرہ میں ہیرو بنا کر پیش کیا جا سکتا ہے؟

خان صاحب تو اسلامی تاریخ اور اسلامی ہیروز کے کردار کو اجاگر کرنے کے لئے ترکی کے مقبول ترین ڈراموں کو یہاں پی ٹی وی پر دکھا رہے ہیں اور یہ بھی ہدایات دے رہے ہیں کہ ہمارے ڈرامے اور فلمیں بھی ترکی میں بنائے جانے والے ڈراموں جیسے ہوں لیکن اُن کی صوبائی حکومت بالی وٖوڈ کے اداکاروں کو ’’ہیروز‘‘ بنا کر پیش کرنے کے لئے، پشاور کے اُن گھروں میں جن میں کبھی وہ اداکار رہتے رہے ہیں، کو خرید کر اِس انداز میں میوزیم بنا رہی ہے کہ ہماری نوجوان نسل اور معاشرہ فلموں میں ناچ گانے والوں اور اُن کی زندگیوں کو اپنے لئے قابلِ تقلید سمجھے۔ میڈیا اور معاشرے کے ایک مخصوص طبقہ کے لئے یہ صوبائی حکومت کا بڑا کارنامہ تو ہو سکتا ہے لیکن یہ وہ راستہ نہیں جس کا وزیراعظم عمران خان نے وعدہ کیا تھا۔

افسوس تو اِس بات کا ہے کہ اِسی صوبائی حکومت کے پاس صوبہ کی سب سے اہم پشاور یونیورسٹی کے ملازمین کو تو تنخواہیں دینے کے پیسے نہیں لیکن وہ کروڑوں روپے بھارتی فلم انڈسٹری کے اداکاروں کو اسلام کے نام پر قائم ہونے والے پاکستان میں ہیرو بنا کر پیش کرنے کے لئے خرچ کر رہی ہے جو اسلامی تعلیمات کے ساتھ ساتھ عمران خان کے ویژن کے بھی خلاف ہے۔

کسی فرد کے انفرادی عمل سے ہمارا کوئی تعلق نہیں لیکن جو حال عمومی طور پر مغرب، بھارت اور حتیٰ کہ پاکستان میں بننے والی فلموں اور ڈراموں کا ہے اور جو کچھ اُن فلموں، ڈراموں میں دکھایا جاتا ہے

اُس کے تناظر میں ریاستِ پاکستان اور تمام حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرے کے سامنے اُنہی لوگوں کو ہیروز بنا کر پیش کریں جو ہمارے دینی اور معاشرتی اقدار کے مطابق ہوں، نہ کہ بھارت اور مغرب کی اندھی تقلید اور میٖڈیا کے منفی کردار کے باعث صحیح اور غلط کے درمیان فرق کو بھلا بیٹھیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔