01 فروری ، 2021
ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ پر پی ٹی آئی حکومت اور نیب کا جو ردِعمل سامنے آیا وہ شرمناک تھا۔ حکومت کی طرف سے جوکہا گیا وہ سراسر جھوٹ تھا اور ایک حکومتی ترجمان نے تو جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لئے سوشل میڈیا پر ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی پرانی رپورٹس کی دستاویزات شیئر کیں تاکہ پڑھنے والوں کو یقین دلایا جائے کہ حالیہ رپورٹ میں پاکستان میں کرپشن میں اضافے کی جو بات کی گئی ہے اُسے پرانی حکومت سے جوڑا جا سکے۔
حکومتی ترجمان نے یہ طعنہ بھی دیا کہ رپورٹ چونکہ انگریزی میں ہے، اِس لئے اُسے پڑھنا اور سمجھنا حکومت کے سیاسی مخالفین کے لئے مشکل ہے، چنانچہ جب اُس کا اردو ترجمہ سامنے آئے گا تو تب پتا چلے گا کہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی تازہ رپورٹ میں جو ڈیٹا استعمال ہوا وہ اِس حکومت کے آنے سے قبل کے برسوں کا ہے، یہ بیان سراسر جھوٹ تھا۔
سب سے پہلے روزنامہ جنگ اور دی نیوز نے ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی تازہ رپورٹ سے متعلق حوالے دیے جن میں یہ حقیقت کھل کر سامنے آئی کہ رپورٹ میں دیے گئے کسی بھی سروے یا ڈیٹا جمع کرنے کے وقت کا تعلق اِس حکومت سے پہلے برسوں سے نہیں بلکہ صرف ایک ادارے کا 2018میں ڈیٹا جمع کیا گیا اور وہ بھی ستمبر اور اکتوبر کے مہینوں کا جب عمران خان کی حکومت برسرِاقتدار آ چکی تھی۔ باقی تمام اداروں کا ڈیٹا جن کی بنیاد پر ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے پاکستان میں کرپشن کے اضافے کی بات کی، وہ 2019-2020میں جمع کیا گیا۔ یعنی اِس کا مطلب یہ ہے کہ رپورٹ میں جتنا ڈیٹا بھی استعمال ہوا وہ پرانا نہیں بلکہ موجودہ حکومت کے دور سے متعلق ہے۔
جنگ اور دی نیوز کی اِس خبر کی اشاعت کے ایک روز بعد بی بی سی نے ایک خبر شائع کی جس میں ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل سے رابطہ کرنے کے بعد اُسی بین الاقوامی ادارہ کے حوالے سے کہا گیا کہ حکومتِ پاکستان کے ترجمان نے جو کہا وہ درست نہیں اور یہ بھی کہ جو بھی ڈیٹا اُس رپورٹ میں استعمال ہوا وہ پرانا نہیں۔ متعلقہ ترجمان کا نام لیتے ہوئے ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے حوالے سے یہ بھی کہا گیا کہ حکومتی ترجمان نے سوشل میڈیا پر جو ڈاکومنٹس شیئر کیے، وہ ٹراسپرنسی انٹرنیشنل کی پرانی رپورٹس کے ہیں۔ یہ کتنے شرم کی بات ہے لیکن نہ کسی نے معذرت کی نہ معافی مانگی۔
موجودہ حکمران کب تک اپنی ہر ناکامی کو سابق حکمرانوں کے سر تھوپتے رہیں گے؟ بجلی، گیس پہلے سے بہت مہنگے کر دیے، اعتراض کیا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ اُن سے پہلے حکمرانی کرنے والے چور ڈاکو اِس کے ذمہ دار ہیں۔ پیٹرول مہنگا کیا تو یہی کہا کہ اُس کے ذمہ دار ماضی کے چور حکمران ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں ملکی قرضہ میں بےپناہ اضافہ کیا اور ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ سوال کرنے پر کہتے ہیں کہ یہ بھی چوروں اور ڈکوؤں کی وجہ سے ہوا۔ ماضی کے برعکس ٹیکس وصولی بھی تاریخ میں پہلی دفعہ گزشتہ دو برسوں کی نسبت کم ہوئی، پوچھا جائے تو کہتے ہیں کہ یہ بھی چوروں کی وجہ سے ہو رہا ہے۔
پاکستان میں ترقی کی شرح پورے خطہ میں موجودہ دور میں سب سے کم ہے جو گزشتہ دورِ حکومت میں 5.8فیصد تک پہنچ چکی تھی۔ جب سوال کیا جاتا ہے کہ جی ڈی پی کیوں کم ہو رہا ہے تو کہتے ہیں کہ اُس کے ذمہ دار چور ہیں۔ روپے کی قدر30 فیصد سے زیادہ گر گئی جس پر کہتے ہیں کہ اُس کے ذمہ دار بھی پرانے حکمران ہیں بلکہ عوام کو یہ بھی کہتے ہیں کہ شکر کریں ڈالر روپےکے مقابلے میں دو، تین سو روپےکا نہیں ہو گیا۔ گورننس کے حالات انتہائی خراب ہیں جس پر کہتے ہیں کہ بیوروکریسی کو چوروں نے تباہ کیا، جس کے نتائج اب سامنے آ رہے ہیں۔ اب تو حکومت کی یہ عادت بن چکی ہے کہ جو کام اچھا ہو جائے اُس کا کریڈٹ تو لیں گے لیکن ہر ناکامی پر ذمہ داری پرانی حکومتوں کے سر تھوپ دیتے ہیں۔
اب ذرا نیب کے متعلق بات کر لیتے ہیں۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی گزشتہ اور موجودہ رپورٹ میں پاکستان میں کرپشن کے اضافے پر بات کی گئی لیکن گزشتہ اور اِس سال بھی نیب نے باقاعدہ پریس ریلیز جاری کرکے یہ تاثر دیا کہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے اپنی اِن رپورٹوں میں نیب کی کارکردگی کو سراہا جبکہ حقیقت میں اِن رپورٹس کو پڑھیں تو نیب کا ذکر تک موجود نہیں۔ اگر پاکستان میں کرپشن میں اضافہ ہو رہا ہے تو یہ نیب کے لئے تعریف نہیں بلکہ ناکامی کی علامت ہے۔
ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل پاکستان جس کا ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ بنانے سے کوئی تعلق نہیں، کے مقامی عہدیداران کی جو بھی مجبوری ہے، اُس بنا پر وہ ہر سال کچھ نہ کچھ اپنی پریس ریلیز میں نیب کی تعریف میں لکھ دیتے ہیں جس کو نیب اِس انداز میں عوام کے سامنے پیش کرتا ہے جیسے یہ تعریف ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کا حصہ ہے جو سراسر جھوٹ ہے۔ یہ تحقیق کی بھی ضرورت ہے کہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل پاکستان کے عہدیداروں کی کیا مجبوری ہے کہ وہ نیب کو خوش کرنے میں لگے رہتے ہیں؟ کہیں کوئی بلیک میلنگ کا معاملہ یا کسی کے ذاتی فائدے کی بات تو نہیں جس کے لئے یہ جھوٹی تعریفیں ہو رہی ہیں؟
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔