ٹرانسپرنسی رپورٹ اور پی ٹی آئی کے دعوے

فائل:فوٹو

دنیا بھر میں بدعنوانی پر نظر رکھنے والی بین الاقوامی تنظیم ’’ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل‘‘ جو ہر سال دنیا کے مختلف ممالک میں کرپشن کے خلاف جاری کوششوں اور اُن کے نتائج پر مشتمل رپورٹ شائع کرتی ہے، نے اپنی حالیہ رپورٹ میں یہ انکشاف کیا ہے کہ ’’گزشتہ دوبرسوں میں پاکستان میں کرپشن میں اضافہ ہوا ہے اور پاکستان 4درجے تنزلی کے ساتھ 180ممالک کی فہرست میں 124ویں درجے پر آگیا ہےجبکہ پاکستان کا اسکور 100میں سے گزشتہ سال کے 32کے مقابلے میں گرکر 31پر آگیا‘‘۔ 

یاد رہے کہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے دور حکومت میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی 2018کی رپورٹ میں پاکستان کی درجہ بندی 117اور اسکور 33تھا جو 2019میں 3درجے گرکر 120اور 2020میں مزید 4درجے گرکر 124کی سطح پر آگیا۔ اِس طرح صرف دو برسوں میں کرپشن انڈیکس میں پاکستان کی درجہ بندی میں 7پوائنٹس کی تنزلی ہوئی جبکہ کرپشن کے حوالے سے پڑوسی ملک افغانستان کی درجہ بندی میں 3پوائنٹس کا اضافہ ہوا جو ہمارے لئے افسوس کا مقام ہے۔

رپورٹ منظرعام پر آتے ہی حکومتی وزراء یہ دعوے کرتے نظر آئے کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ معتبر (Credible) نہیں اور وزیراعظم نے رپورٹ پڑھے بغیر موقف اختیار کیا کہ ڈیٹا گزشتہ حکومت کے ادوار پر مبنی ہے جسے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے چیئرمین نے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’’ادارے کی حالیہ رپورٹ کا ڈیٹا گزشتہ دو برسوں پر مبنی ہے اور موجودہ حکومت کو مختلف شعبوں میں اپنی کارکردگی بہتر بنانا ہوگی‘‘۔ واضح رہے کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی گزشتہ سال کی رپورٹ پر بھی پی ٹی آئی حکومت نےیہ موقف اختیار کیا تھا کہ ’’عالمی ادارے کی رپورٹ گزشتہ ادوارِ حکومت میں ہونے والی بدعنوانی ظاہر کرتی ہے‘‘۔

 خیال رہے کہ پی ٹی آئی اگست 2018سے برسراقتدار ہے اور گزشتہ ڈھائی برسوں سے مسلسل ملک سے کرپشن اور بدعنوانی کے خاتمے کے عزم کا اظہار اور دعوے کررہی ہے۔ وزیراعظم بھی کئی بار کہہ چکے ہیں کہ ملک سے بدعنوان عناصر کا خاتمہ کئے بغیر چین سے نہیں بیٹھیں گے جبکہ پی ٹی آئی دور میں نیب بھی کافی سرگرمِ عمل دکھائی دیتا ہے جس نے حکومت مخالفین اور اپوزیشن رہنمائوں کے خلاف کرپشن کے درجنوں مقدمات قائم کئے اور یہ رہنما جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں مگر آج تک اُن کے خلاف نہ کوئی ثبوت سامنے آسکا اور نہ ہی نیب لوٹی ہوئی دولت برآمد کرسکا ۔

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے سروے کے مطابق پاکستان میں سب سے زیادہ کرپشن سرکاری اداروں میں ہوتی ہے جبکہ عدلیہ، سیاسی جماعتیں، میڈیا اور پرائیویٹ سیکٹرز بھی کرپشن سے مبرا نہیں۔ ماضی میں نیب کے سابق چیئرمین فصیح بخاری اِس بات کا اعتراف کرچکے ہیں کہ پاکستان میں یومیہ 12ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے جبکہ عمران خان اقتدار میں آنے سے قبل اپنی تقریروں میں یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ ملک میں یومیہ 15 ارب روپے کی کرپشن ہورہی ہے مگر افسوس کہ حکومت گزشتہ ڈھائی سال کے دوران ابھی تک کرپشن پر قابو پانے میں ناکام رہی ہے جس کا منہ بولتا ثبوت ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ ہے۔ 

یہی وجہ ہے کہ مٹھی بھر اشرافیہ نے ملک کے وسائل پر قبضہ کر رکھا ہے جن کی دولت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جبکہ ملک کی نصف آبادی غربت اور افلاس کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔پانامہ کیس جب منظر عام پر آیا تو اُس میں آف شور کمپنی کے مالک 300سے زائد پاکستانیوں کے نام سامنے آئے مگر کیس صرف وزیراعظم نواز شریف کے خلاف بنا جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہدف صرف نواز شریف تھے اور لوٹی ہوئی دولت واپس لانے میں کوئی سنجیدہ نہیں تھا۔ حالیہ براڈشیٹ اسکینڈل منظرعام آنے کے بعد بھی یہ واضح ہوچکا ہے کہ براڈشیٹ سے معاہدے کا مقصد لوٹی ہوئی دولت واپس لانا نہیں بلکہ کمیشن کا حصول تھا۔

OECDاور سوئٹزرلینڈ سے کئے گئے معاہدوں کے بعد اب حکمرانوں، سیاستدانوں اور بیورو کریٹس کیلئے اپنی دولت بیرون ملک بینکوں میں رکھنا تقریباً ناممکن ہوگیا ہے۔ حکومت کی قانونی و اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ OECDاور سوئٹزرلینڈ سے کئے گئے معاہدے کے تحت پاکستانیوں کی بیرون ملک موجود غیرقانونی دولت کے بارے میں نہ صرف معلومات حاصل کرکے منظرعام پر لائے بلکہ کالا دھن پاکستان واپس لانے میں کسی سیاسی مصلحت اور مفاہمت سے کام نہ لے۔

کرپشن کے خلاف حکومتی مہم، ضرورت سے زیادہ نیب کے متحرک ہونے، پبلک اکائونٹس کمیٹی اور نیب کے اربوں روپے وصولی کے بلند بانگ دعوئوں کے باوجود پاکستان کی کرپشن رینکنگ میں اضافے نے موجودہ حکومت کی کرپشن مخالف مہم کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے ۔ ٹرانسپیرنسی رپورٹ سے یہ بھی ثابت ہوا کہ حکومت میں آنے سے قبل عمران خان کا کرپشن کے خاتمے کا نعرہ محض ’’سیاسی نعرہ‘‘ تھا۔ 

عمران خان ماضی میں اکثر یہ کہا کرتے تھے کہ ’’اگر ایماندار شخص حکمراں ہو تو ملک سے کرپشن ختم ہوجاتی ہے لیکن اگر ملک میں کرپشن ہورہی ہو تو اِس کا ذمہ دار حکمراں ہوتا ہے‘‘۔ وزیراعظم عمران خان کا یہ دعویٰ اگر درست تسلیم کرلیا جائے تو اس طرح ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ کرپشن کے خلاف موجودہ حکومت کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔