24 مارچ ، 2021
سپریم کورٹ میں این اے 75 ڈسکہ میں دوبارہ انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیےکہ 23 پولنگ اسٹیشنز سے متعلق درخواست پر الیکشن کمیشن نے پورے حلقےکا ریلیف دیا ، یہ حیران کن ہے ۔
سپریم کورٹ میں ڈسکہ این اے 75 انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران تحریک انصاف کے امیدوار کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ الیکشن کمیشن کی شکایت کا مرکز پنجاب حکومت کی ناکامی ہے جب کہ ضمنی انتخابات کے دوران الیکشن کمیشن کی ہدایت پر رینجرز بھی موجود تھی۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیے الیکشن کمیشن نے پنجاب حکومت نہیں بلکہ صوبائی انتظامیہ پر بات کی، فیصلے میں رینجرز کا ذکر نہیں ۔
ن لیگی امیدوار نوشین افتخار کے وکیل سلمان اکرم راجا کاکہنا تھاکہ یہ منظم دھاندلی اور سازش کا کیس ہے، پریذائڈنگ افسران اور انتخابی مواد غائب ہوا جب کہ انتخابی مواد اور عملہ پولیس کے تحفظ میں تھا، الیکشن کمیشن نے اپنے عملے سے رابطہ کی متعدد کوششیں کیں مگر ناکام رہا۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری نوٹس 23 پولنگ اسٹیشنز سے متعلق تھا لیکن ریلیف پورے حلقے کادیاگیا،23 پولنگ اسٹیشنز کی درخواست پر 360 پولنگ اسٹیشنز کا ریلیف حیران کن ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے سلمان اکرم راجا سے کہا بنیادی بات پر آئیں،حیرانی ہے کہ پولنگ عملے کے ساتھ پولیس بھی غائب ہوگئی، 20 پریزائڈنگ افسروں کا سیکیورٹی عملے کے ہوتے ہوئے غائب ہونا بھی اہم معاملہ ہے،تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھ کر فیصلہ دیں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ این اے 75 میں دو ہیوی ویٹس کی لڑائی ہے، لڑائی بڑوں کی ہے اور بھگت عوام رہے ہیں، عوام کو ہیوی ویٹس کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑ سکتے۔