12 اپریل ، 2021
پاکستان خصوصاً پنجاب کی سیاست میں ایک نیا عنصر ( فیکٹر ) داخل ہوا ہے، وہ نیا سیاسی عنصر جہانگیر ترین کی صورت میں ہے۔ یہ عنصر ایسا عمل انگیز ثابت ہو سکتا ہے، جسے پاکستان کی سیاسی کیمسٹری تبدیل کرنے کےلئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
جہانگیر ترین کو میں نے نیا سیاسی فیکٹر قرار دیا ہے جس کے کئی اسباب ہیں۔ وہ اپنے اور اپنے خاندان کے خلاف مقدمات اور اکاونٹس منجمد ہونے کے باوجود پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) سے تاحال الگ نہیں ہوئے لیکن انہوں نے اپنے ہاں سیاسی دعوت کا اہتمام کرکے اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کر دیا ہے۔ اس دعوت میں رپورٹس کے مطابق تقریباً 30 ارکان قومی و صوبائی اسمبلی شریک ہوئے، جن میں سے کچھ وزیر اعلیٰ پنجاب کے وزرا اور مشیران بھی تھے۔
اس دعوت میں پی ٹی آئی کے تمام ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کو مدعو نہیں کیا گیا تھا صرف اعتماد کے لوگوں کو بلایا گیا تھا۔ اس سے پی ٹی آئی کے اندر ایک الگ گروہ بننے کا جو تاثر پیدا ہوا، وہ کچھ غلط نہیں ہے۔ اس میں قابل توجہ بات یہ ہے کہ جہانگیر ترین کی دعوت میں جن 30 ارکان قومی و صوبائی اسمبلی نے شرکت کی، انہوں نے نتائج کی پروا کئے بغیر جہانگیر ترین کا ساتھ دیا اور اپنا سیاسی مستقبل ان سے وابستہ کر دیا۔
یہ لوگ خود بھی بڑے سیاسی خانوادوں سے تعلق رکھتے ہیں اور سیاسی طور پر ان کا بڑا قد کاٹھ اور وزن ہے۔ انہوں نے جہانگیر ترین کو اپنا لیڈر تسلیم کیا ہے۔ اس لئے میں نے جہانگیر ترین کو پاکستان کی سیاست کا ایک نیا فیکٹر قرار دیا ہے۔
پی ٹی آئی کے بعض حلقوں کا یہ موقف ہے کہ جہانگیر ترین کا چینی اسکینڈل میں احتساب کرکے پی ٹی آئی کی حکومت نے بلا امتیاز احتساب کرنے کے اپنے نظریے کو سچ ثابت کر دیا ہے۔ یہ پی ٹی آئی کے اس حلقے کا نصابی بیانیہ ہے۔ احتساب کیا ہے اور احتساب کرنے والے خود کیا ہیں؟ اس سوال کا جواب جہانگیر ترین سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔
مذکورہ بالا نصابی بیانیے کا اظہار کرنے والے بھی بخوبی جانتے ہیں کہ عمران خان اور پی ٹی آئی کے لئے جو کچھ جہانگیر ترین نے کیا، وہ کوئی اور نہیں کر سکتا۔ 2018 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کی کامیابی سے لے کر وفاق، پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی حکومتوں کی تشکیل تک جہانگیر ترین ایک بنیادی فیکٹر تھا۔
میں جہانگیر ترین سے ملنے کی خواہش کے باوجود آج تک ان سے نہیں مل سکا۔ وہ بے پناہ صلاحیتوں کے مالک ہیں، انتہائی کامیاب بزنس مین ہیں اور زرعی معیشت پر انہیں کمال حاصل ہے۔ ان کے سیاسی اور سماجی رشتوں کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ وضع داری اور رکھ رکھاؤ ان کی شخصیت کی بنیادی خصوصیات ہیں۔ وہ ان رشتوں کو نبھانے پر بہت زیادہ وقت اور وسائل خرچ کرتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کے پی ٹی آئی کے جو پرانے ساتھی ہیں، وہ ان صلاحیتوں سے محروم ہیں۔ ان کے پاس پیسہ شاید ہو گا لیکن وہ اپنی اپنی ذات میں تنہا ہیں۔
وہ پاکستان کے سیاسی اور سماجی کلچر کا مکمل ادراک بھی نہیں رکھتے اور ان کی اپنی کوئی سیاسی حیثیت بھی نہیں ہے۔ شاید انہی لوگوں کی طرف اشارہ کرکے جہانگیر ترین کہہ رہے تھے کہ ’’ میں دوست تھا۔ مجھے دشمنی کی طرف ‘‘ کیوں دھکیلا جا رہا ہے۔
جہانگیر ترین کے بڑے سیاسی خانوادوں سے بھی سیاسی رابطے ہیں۔ پی ٹی آئی کے لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ عمران خان کو لانے والی قوتیں کچھ اور ہیں۔
جہانگیر ترین ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ انہیں یہ اندازہ نہیں ہے کہ اگر پی ٹی آئی کی حکومت بنانے کا منصوبہ کچھ طاقتور قوتوں کا تھا تو اسے زمین پر عملی جامہ وہ لوگ نہیں پہنا سکتے تھے، جو اپنی ذات کے خول سے نہیں نکلتے اور تنہا مڈل کلاسوں کی زندگی گزارتے ہیں۔ جہانگیر ترین جیسے لوگوں نے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنایا۔
واضح رہے کہ طاقتور حلقوں کامنصوبہ اور مفروضہ خود پی ٹی آئی کا دیا ہوا ہے۔ اگر یہ منصوبہ نہ بھی ہوتا تو بھی زمینی سیاست ’’تنہا ارب پتی مڈل کلاسیے‘‘ نہیں کر سکتے۔ سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ بھی اس زعم میں تھے کہ انہیں لانے والی قوتیں کوئی اور ہیں۔
اس لئے انہوں نے اپنی سیاسی لابی نہیں بنائی اور ارکان اسمبلی سے ان کا تعلق رسمی سا ہوتا تھا۔ وہ قوتیں انہیں سینیٹ کے الیکشن میں نہ صرف شکست سے نہیں بچا سکیں بلکہ قومی اسمبلی کے ایوان میں پی ٹی آئی کی حکومت کو اپنی اکثریت دوبارہ ثابت کرنا پڑی اور وزیر اعظم کو اعتماد کا ووٹ بھی لینا پڑا۔
جہانگیر ترین ایک بڑا سیاسی فیکٹر بن کر ابھرے ہیں۔ حفیظ شیخ کی سینیٹ کے الیکشن میں شکست اور پھر وزیر اعظم عمران خان کو اعتماد کا ووٹ ملنے کے بعد جو ڈرامائی صورت حال پیدا ہوئی، وہ بھی جہانگیر ترین فیکٹر کی وجہ سے پیدا ہوئی۔ عمران خان کی ٹیم میں جہانگیر ترین جیسا کوئی اور شخص نہیں ہے۔ ان کے ساتھ صرف 30ارکان قومی و صوبائی اسمبلی ہی نہیں، ان کے علاوہ اور بھی ارکان ہیں، جو کچھ عرصے بعد سامنے آسکتے ہیں۔
جہانگیر ترین اسٹیٹس مین بھی ہیں وہ پی ٹی آئی کے لوگوں کی طرح بغیر سوچے سمجھے بات نہیں کرتے۔ وہ تحریکِ انصاف کی حکومت کے لئے خاص طور پر وفاق اور پنجاب میںبڑا خطرہ بن سکتے ہیں!