10 جون ، 2021
کینیڈا کے صوبہ اونٹاریو کے شہر لندن میں مذہبی تعصب کے شکار ڈرائیور نے پاکستانی نژاد مسلمان خاندان کو اُس وقت گاڑی تلے روند دیا جب وہ اپنے گھر کے باہر چہل قدمی کر رہے تھے۔ اِس افسوسناک سانحہ میں خاندان کے 4افراد جاں بحق ہو گئے جبکہ ایک 9سالہ بچہ زندہ بچ پایا ۔
20سالہ قاتل ڈرائیور کے متعلق بتایا جا رہا ہے کہ وہ کئی دنوں سے مقتول خاندان کی جاسوسی کر رہا تھا۔ کینیڈا میں ہونے والے اس افسوسناک سانحہ کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے واقعہ کو دہشت گردی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ نفرت پر مبنی اقدام تھا، ہم لندن کی مسلم کمیونٹی اور پورے ملک میں موجود مسلمانوں کے ساتھ کھڑے ہیں، اسلامو فوبیا کی کینیڈا میں کوئی جگہ نہیں ہے۔
خاموشی سے پنپنے والی یہ نفرت نقصان دہ اور انتہائی شرمناک ہے، اسے ختم ہونا ہو گا۔ کینیڈین شہر لندن کے میئر نے کہا ہے کہ یہ مسلمانوں اور لندن کے شہریوں کے خلاف انجام دیا گیا اجتماعی قتلِ عام کا ایک واقعہ ہے جس کی بنیاد میں بےپناہ نفرت موجود تھی، ہمارے دل ٹوٹ گئے ہیں، ہم اُس خاندان کیلئے افسردہ ہیں جس کی تین نسلیں ماری گئی ہیں۔
لندن سٹی ہال کے باہر موجود پرچموں کو تین روز کیلئے سرنگوں رکھا جائے گا۔ پاکستانی حکمران پارٹی اور اپوزیشن نے اس دلخراش واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے اسے اسلامو فوبیا کے بڑھتے ہوئے رجحان سے جوڑا ہے۔ ہمارے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ مسلمانوں کا تحفظ یقینی بنائیں گے۔
ترکی نے بھی کہا ہے کہ عالمی برادری اسلامو فوبیا کے خلاف مشترکہ کارروائی کرے۔ بڑی اچھی بات ہے مسلمانوں کا تحفظ یقینی بنایا جانا چاہئے لیکن اگر وہ یہ کہتے کہ ہر اقلیت یا مظلوم طبقے کا تحفظ یقینی بنایا جانا چاہئے تو شاید ان کی ذمہ داری کا تقاضا زیادہ بہتر سمجھا جاتا۔
دنیا میں کہیں بھی کوئی زیادتی یا کوئی سانحہ ہو، اس پر ایک ردِعمل تو یہی ہوتا ہے کہ قاتل یا زیادتی کرنے والے کی پُرزور مذمت کی جاتی ہے دوسرا اگر وہاں کی حکومت یا انتظامیہ قاتل کو نہیں پکڑتی یا اس کے خلاف تادیبی کارروائی نہیں کرتی تو ایسی حکومتوں کے خلاف بھی الفاظ کے گولے پھینکے جاتے ہیں، سمجھ نہیں آ رہی یہاں کس کے خلاف چڑھائی کریں کیونکہ واردات کے فوری بعد سفاک قاتل کو جائے وقوعہ سے چھ کلو میٹر دور ایک شاپنگ سنٹر سے گرفتار کر لیا گیا ہے اور اس پر قانونی تقاضے کے مطابق قتل اور اقدامِ قتل کی فرد جرم عائد کر دی گئی ہے۔
کینیڈین انتظامیہ بشمول وزیراعظم نہ صرف رو رہے ہیں بلکہ نفرت پر مبنی سوچ کے خلاف آخری حد تک جا رہے ہیں اور یہ عزم دہرا رہے ہیں کہ ہم اپنے ہاں منافرتوں کی بیخ کنی کرکے رہیں گے۔ کینیڈین میڈیا اس سوچ کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔ اگر کسی کو برا نہ لگے تو ایسے ردِ عمل کا تقابل تھوڑی دیر کیلئے اپنے ہاں وقوع پذیر ہونے والے ایسے ہی سانحات سے کرتے ہیں۔
یہاں مذہب کے نام پر اٹھائی گئی منافرت کی آگ میں کب کب، کتنی کتنی انسانی جانیں حقِ زندگی سے محروم کی جاتی رہی ہیں، انتظامیہ کی نااہلیاں تور ہیں ایک طرف، ہمارے سماج میں اس کے خلاف کس قدر غم و غصہ پایا جاتا ہے؟ کیا کبھی کسی نے ان حقائق پر غور کیا ہے؟
ان دنوں میڈیا میں اسلامو فوبیا کی بڑی دھوم ہے، یہ اسلامو فوبیا کیا ہے؟ اسلام کے خوف پر اہلِ مغرب کا غم و غصہ، ہمارا معصومانہ سوال ہے کہ ہماری موجودہ دنیا میں مذہب کا سب سے زیادہ استعمال یا استحصال کون سی قوم کر رہی ہے؟
اس وقت دنیا کا سب سے بڑا مذہب مسیحیت ہے، یورپ، کینیڈا، امریکہ کے عوام کی بھاری اکثریت اسی مذہب کے ماننے والوں کی ہے اور یہ دنیا کے طاقتور ممالک تسلیم کئے جاتے ہیں، کیا کبھی کسی نے غور کیا کہ یہ تمام ممالک اپنے معاملات میں مذہب کا کتنا استعمال کرتے ہیں؟
یہ سب تو کھلے بندوں خود کو سیکولر کہتے ہیں، مذہب کو انسان اور خدا کا باہمی معاملہ قرار دیتے ہوئے اپنے تمام شہریوں کو ایک نظر سے دیکھنے کا دعویٰ ہی نہیں کرتے بلکہ عملاً بھی ایسا کرتےہیں۔ مغربی ممالک کے آئین و قانون میں مذہبی، نسلی اور جنسی بنیادوں پر امتیاز کی گنجائش کہاں ہے؟ اس کے بالمقابل ہم ان امتیازات پر فخر کرتے اور اتراتے نہیں تھکتے ۔
عرضِ مدعا یہ ہے کہ اس وقت اصل مسئلہ اسلامو فوبیا نہیں، مسلم اور نان مسلم کے درمیان موجود وہ کھائی ہے جو ہم مسلمانوں نے خود کھود رکھی ہے اور روز بروز بجائے اسے پاٹنے کے مزید گہرا کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ مغرب میں اسلامو فوبیا ہے تو سوال اٹھتا ہے کہ آپ لوگ اتنی بڑی تعداد میں مغربی ممالک کا رُخ کیوں کرتے ہیں؟
ان کی شہریت لینے کیلئے کیا کیا بہانے تراشتے ہیں، جب پناہ مل جاتی ہے تو پھر وہاں جنونیت کیوں پر پرزے نکالنے لگتی ہے؟ انتہا پسندی سے چھٹکارے کی ایک ہی راہ ہے کہ آپ بلاامتیاز انسانوں سے پیار کریں اور انسانیت کی بات کریں۔
مذہبی شناختوں کی بھرمار سے انسانیت کو تقسیم نہ کریں۔ لہٰذا اے مسلمان بھائیو اور بہنو! جو کوئی بھی مذہبی تقسیم، منافرت، جنونیت یا انتہا پسندی کی بات کرتا ہے تو آپ خود اس کو قابو کریں۔ اگر ہم دنیا میں امن و سلامتی کے خواستگار ہیں تو سب سے پہلے خود اس کے علمبردار و عملدار بن کر اٹھیں، اس نوع کے سانحات اور منافرتیں ازخود دم توڑ دیں گی۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔