کیا افغانستان میں سابقہ طالبان دور کے قوانین دوبارہ نافذ ہوں گے؟

ملا نور الدین جیو نیوز کے نمائندے کو انٹرویو دے رہے ہیں۔ فوٹو: جیو نیوز
ملا نور الدین جیو نیوز کے نمائندے کو انٹرویو دے رہے ہیں۔ فوٹو: جیو نیوز

طالبان کی قطر میں سیاسی دفتر کی قیادت کی قندھار میں موجود جنگی کمانڈروں سے مشاورت مکمل ہو گئی ہے جس کے بعد افغانستان میں حکومت کی تشکیل کے معاملے پر مشاورت کے لیے طالبان کی اعلیٰ جنگی و سیاسی قیادت کابل پہنچ چکی ہے۔

کابل کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد طالبان کی جانب سے عام معافی اور دنیا کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کرنے کا اعلان کیا گیا ہے لیکن امریکا، برطانیہ اور اقوام متحدہ سمیت دنیا بھر کی نظریں طالبان پر مرکوز ہیں کہ وہ افغان عوام کے ساتھ کیے اپنے وعدوں پر کس حد تک عمل کرتے ہیں۔

قندھار میں موجود جیو نیوز کے نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے سابقہ طالبان دور کے وزیر برائے قانون و عدل ملا نورالدین ترابی کا کہنا تھا کہ حکومت کی تشکیل کے سلسلے میں ملا عبدالغنی برادر جلد بات چیت کا آغاز کریں گے اور حالات کے مطابق تمام طالبان رہنما منظرعام پر آجائیں گے۔

ملا نورالدین ترابی کا کہنا تھا کہ طالبان سیاسی سوچ کے مالک بن چکے ہیں، موجودہ صورتحال میں قیدیوں کی رہائی، سزا و جزا اور تبادلے کے لیے باقاعدہ ایک سربراہ ہو گا، کسی قیدی کے ساتھ غلط سلوک روا نہیں رکھا جائے گا۔

 افغانستان میں غیریقینی صورتحال جلد ختم ہو گی: ملا ترابی

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں شرعی قوانین کو ہر صورت مدنظر رکھناہو گا، لیکن داڑھی، حمام، کھیل کود پر پابندی اور سابقہ طالبان دور کے دیگر قوانین اب نافذ نہیں ہوں گے۔

طالبان رہنما نے مزید کہا کہ عوام خود غیر شرعی کاموں سے اجتناب کرے، اب عوام کے ساتھ کسی قسم کی زور زبردستی نہیں کی جائے گی، ہمیں امن، محبت اور اخلاق کے ساتھ پیش آنے کی ہدایات دی گئی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں طالبان رہنما کا کہنا تھا کہ پاکستان سمیت ہر ہمسایہ ملک کے ساتھ دوستی کی بنیاد پر تعلقات قائم کریں گے اور جلد ہی افغانستان میں غیریقینی صورتحال ختم ہو گی۔

مزید خبریں :