26 اگست ، 2021
افغان سرزمین پر 20 برس تک امریکی قبضہ کے باوجود آج مورخہ 26 اگست 2021کو پورے افغانستان پر نظر ڈالتے ہیں تو سوائے طالبان کے کوئی ایک سیاسی پارٹی ، شخصیت یا طاقت نظر نہیں آتی، جس پر بھروسہ کرتے ہوئے مستقبل کے ماڈریٹ، پروگریسو، ڈیموکریٹ افغانستان کی امید باندھی جا سکے یا اس سے بھی کہیں نیچے آ کر، کوئی ایسا پاپولر چہرہ دکھائی دے جو پورے قد کے ساتھ طالبانی یلغار کے سامنے کھڑے ہونے کے قابل ہو۔
طالبان کے پچھلے دور حکمرانی میں اندرون ملک انہیں اچھی خاصی مزاحمت کا سامنا رہا۔ وادی پنج شیر میں ا حمد شاہ مسعود جیسے پرعزم لیڈر نے پیہم طالبان کی ناک میں دم کیے رکھا۔ علاوہ ازیں برہان الدین ربانی، مجددی، سیاف اور ان سے بھی بڑھ کر مولوی یونس خالص کی حزب اسلامی تھی، رشید دوستم طالبان کیلئےخوف کی ایک علامت تھا، جو اب اپنے بھاری بھرکم چمکیلے بیجز اور تمغوں سمیت راہ فرار اختیار کرچکا ہے، علاوہ ازیں حکمت یار جیسے لوگ تھےجو آج چلے ہوئے کارتوس دکھائی دیتے ہیں۔
ہم پاکستانیوں کیلئے بھی سوچنے کی بات ہے کہ اصل پاپولر قیادت کو اگر فطری اسلوب میں پھلنے پھولنے نہ دیا جائے اور کٹھ پتلیوں کے ذریعے نظم حکومت چلانے پر اکتفا کر لیا جائے تو کسی بھی بحرانی صورت میں ایسے ہی مناظر سامنے آتے ہیں جیسے آج کابل میں دکھائی دے رہے ہیں۔طالبان کو آج 1996 سے کہیں بہتر حالات میں اقتدار ملا ہے تب اگر انہیں زخموں سے اٹا ہوا اور کھنڈرات سے بھرا ہوا افغانستان ملا تھا تو اب کے عالمی سپر پاور کا تعمیر کردہ چمکتا افغانستان ان کے ہاتھ لگا ہے ایسا انفراسٹرکچر طالبان شاید خوابوں میں ہی بنا سکتے تھے۔
یہی صورتحال جدید ترین اسلحے اور ہتھیاروں کی ہے سڑکوں، پلوں،اسپتالوں اور تعلیمی اداروں کی ہے۔ امریکہ نے تو جو اربوں ڈالرز یہاں لگائے سو لگائے انڈیا نے بھی کھربوں روپے کی سرمایہ کاری کی۔ مودی سرکار نے چار سو کے قریب ترقیاتی منصوبے یہاں شروع کر رکھے تھے۔اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کابل میں اقتدار طالبان کیلئے پھولوں کی سیج ہو گا، جو شدید چیلنجز دکھائی دے رہے ہیں ان سے شدید تر وہ ہیں جو ہنوز اوجھل ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ سر اٹھاتے چلے جائیں گے۔
انہوں نے اچھا کیا کہ آتے ہی عام معافی کا اعلان کیا ہے۔ اب اگلا قدم یہ ہونا چاہئے کہ قبائلی سوسائٹی کے تناظر میں تمام دھڑوں کو حصہ بقدر جثہ اپنے ساتھ شامل کرتے ہوئے وسیع البنیاد قومی حکومت کی طرف آگے بڑھیں۔ اس وقت سوائے جنگجوئی کے ان کی حالت ہر شعبے میں ہر حوالے سے پتلی ہے،کیا ہی بہتر ہو کہ وہ اسلامی جمہوریہ افغانستان کے آئین کو تسلیم کرتے ہوئے کچھ متفقہ ترامیم کے ساتھ آگے بڑھیں۔ بنیادی انسانی حقوق، خواتین اور اقلیتوں کے حوالے سے عالمی رائے عامہ کے خدشات کو دور کرنے کیلئے ملا ہیبت اللہ اور ملا عبدالغنی برادر کی زبانی یقین دہانیاں کروائی جائیں اور بالفعل انہیں منوایا اور تسلیم بھی کروایا جائے۔
ہمارے بہت سے لوگ اس نوع کے دعوے کر رہے ہیں کہ 2021 کے طالبان 90کی دہائی کے ملا عمر والے طالبان نہیں ہیں وقت کے تھپیڑوں سے یہ بہت کچھ سیکھ کر اچھے خاصے سیانے اور عصری تقاضوں کو سمجھنے والے بن چکے ہیں۔ بہت سے خوش گماں اور راسخ العقیدہ لوگوں نے تو طالبان کی کامیابی پر خوشیوں کے شادیانے بجائے ہیں، وزارتِ عظمیٰ جیسی ذمہ داری پر فائز شخص نے فرمایا کہ طالبان نے غلامی کی زنجیریں توڑ دی ہیں تو پھر اُن کےہمنوائوں نے بھی وہی کرنا تھاوہ فرماتےہیں، ’’انڈیا کو تو تحفہ دیا گیا ہےاس کے یومِ آزادی پر اور یہ کہ اب طالبان کشمیر میں انڈیا کی ایسی تیسی کرتے ہوئے اسے بھی غلامی سے آزاد کروائیں گے‘‘۔
خدا کے بندو کچھ تو ہوش کے ناخن لو، حقائق کی اصلیت کو سمجھو پہلے ہی اس جذباتی انڈیا دشمنی کی وجہ سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بیڑہ غرق ہو گیا ہے۔ ایک طرف آپ پوری دنیا کو کہہ رہے ہو کہ طالبان پر ہمارا اثر و رسوخ نہیں رہا وہ ہماری نہیں مانتے۔ دوسری طرف خود کو یوں ان کے ساتھ نتھی کرتے ہوئے آپ دنیا کو کیا پیغام پہنچانے جا رہے ہو؟اس وقت چین، روس اور ایران جیسے ہمسایہ ممالک بظاہر جتنے بھی خوش دکھائی دے رہے ہیں کہ افغانستان میں امریکہ کو ویتنام جیسی رسوائی و پسپائی کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن اندر سے سوائے پاکستان کے شاید کوئی بھی اس حوالے سے مطمئن اور پرجوش نہیں ہے۔
جہاں تک افغانستان میں طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کا سوال ہے اس میں فی الوقت تیل دیکھو ، تیل کی دھار دیکھو کی پالیسی رہے گی لیکن آگے چل کر کچھ شرائط کے تحت ہمسایہ ممالک اس لئے اسے قبول کر سکتے ہیں کہ یہاں سے امریکی اثر و رسوخ کا خاتمہ ہو جبکہ امریکہ اور اس کے اتحادی یہ نہیں چاہیں گےکہ یہ ملک چین یا روس کی گود میں جا بیٹھے، قطر کے رول کو اس تناظر میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ بہرحال اس کا انحصار طالبان کے اپنے طرز عمل پر ہو گا جس کی توقعات کم ہیں۔
یہاں ’’تبدیلی‘‘ کے دعویدار جس شادمانی کا اظہار کر رہے ہیں، انہیں سوچنا چاہئے کہ جو’’برگزیدہ گروہ‘‘ اپنے قومی پرچم کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں اور اسے ہٹا کر اس کی جگہ پارٹی پرچم لگانا چاہتا ہے، جلال آباد میں جس طرح ملکی پرچم کیلئے تین افغان نوجوان، ان کی گولیوں سے مرے ہیں اس سے آئین، جمہوریت اور انسانی حقوق کی توقعات وابستہ کرنا مجھے تو دیوانے کا خواب سا لگتا ہے۔
گزشتہ20 سال میں افغانستان کے اندر جو نئی نسل پروان چڑھی ہے،بلاشبہ وہ اس صورتحال کو قبول نہیں کر سکتی اور نہ جبر کےماحول میں خوشی سے رہ سکتی ہے یہ تقریباً ویتنام جیسی ہی صورتحال ہے کہ افغان نوجوان زبردستی جہازوں میں گھس کر اپنے ملک سے نکل جانا چاہتے ہیں، کابل ایئر پورٹ پر جہاز کے اندر نہ گھس سکنے والے اس کے ساتھ لٹک کر جس طرح گرکر مرے، ان تین میں سے ایک کے متعلق بتایا جا رہا تھا کہ وہ ڈاکٹر تھا، اس مثال سے اس نفرت اور خوف کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے جو فی الحقیقت افغان نوجوانوں میں پائی جا رہی ہے۔
جو لوگ اس امریکی پسپائی کا تقابل ویتنام میں امریکی شکست سے کر رہے ہیں انہیں اس پہلو پر ضرور غور کرنا چاہئے کہ آج اسی ویتنام کے لوگ امریکہ کیلئے کیا خیالات رکھتے ہیں اس وقت ویتنام کی سب سے زیادہ تجارت امریکہ کے ساتھ ہی ہے اور ویتنامی نوجوان آج بھی امریکہ پہنچنے کیلئے بے چین رہتے ہیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔