13 نومبر ، 2021
متحدہ عرب امارات میں ہونے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں آسٹریلیا نے پاکستان کو شکست دے کر فائنل میں جگہ بنائی، ٹورنامنٹ کے گروپ مرحلے میں ناقابل شکست رہنے والی ٹیم جب ہاری تو قوم کے دل ٹوٹ گئے لیکن قوم کرتی تو بھی کیا کرتی، کھلاڑیوں نے پہلے بھارت اور پھر نیوزی لینڈ کیخلاف میچ جیت کر قوم کے پرانے غصے ٹھنڈے کیے تھے اس لیے سب اچھا ہے کی صدائیں سنائی دیں۔
جذبہ حب الوطنی میں بہہ کر اپنی غلطیوں سے نظریں پھیر لینا بہت آسان ہے، مشکل ہے دل پر پتھر رکھ کر قوم کے وسیع تر مفاد میں ان کوتاہیوں کی نشاندہی کرنا جن کی وجہ سے ناکامی مقدر بنی۔
میچ ختم ہونے کے بعد سے سوشل میڈیا ہو، دفتر یا کوئی اور جگہ، ہر کسی سے ٹیم کی تعریفیں ہی سننے کو ملیں لیکن نہ جانے کیوں ان تعریفوں کو سن کر اچھا لگنے کے برعکس غصہ آیا۔ شاید یہ بات سن کر بہت سے لوگ ہماری حب الوطنی پر شکوک کا اظہار کریں لیکن کیا کریں بطور صحافی تنقیدی جائزہ لینا اب عادت سی بن چکی ہے۔
سیمی فائنل میں شکست کے بعد جو چیزیں موضوع بحث رہیں یا یوں کہہ لیجئے کہ شائقین کرکٹ جن باتوں کی تعریف اور تنقید کرتے نظر آئے ان میں رضوان کا دو دن آئی سی یو میں رہنے کے باوجود میچ کھیلنا اور ففٹی مارنا، ڈیوڈ وارنر کا محمد حفیظ کی ڈھیلی گیند پر چھکا لگانا اور تیسرا حسن علی کا کیچ ڈراپ کرنا۔
سب سے پہلے تذکرہ کرتے ہیں وارنر کا حفیظ کو چھکا مارنا۔ اس حوالے سے کرکٹ کے جذباتی دیوانوں سے جو تبصرے سنے وہ کچھ اس طرح تھے:
’وارنر میں اخلاقیات نام کی چیز نہیں‘۔
’وارنر نے اسپورٹس مین اسپرٹ کا مظاہرہ نہیں کیا ایسی گیند پر اسے چھکا نہیں مارنا چاہیے تھا‘۔
اور تو اور بھارتی ٹیم کے سابق کرکٹر گوتم گمبھیر بھی وارنر کو کوستےہوئے نظر آئے (حالانکہ پاکستان کی شکست پر وہ اندر سے تو خوش ہی ہوں گے)۔ گوتم نے ڈیوڈ وارنر کے چھکے کو گیم کی اسپرٹ کیخلاف اور شرمناک قرار دے دیا جیسے وارنر نے کوئی گناہ یا غیر قانونی کام کردیا ہو۔ ساتھ ہی انہوں نے بھارتی اسپنر روی چندرن ایشون سے بھی اس پر رائے طلب کرلی جنہوں نے گوتم کی ’کچی‘ کرتے ہوئے وارنر کے سکسر کو زبردست قرار دے دیا۔
پاکستانی شائقین کرکٹ ڈیوڈ وارنر سے کیا توقع رکھتے تھے؟ وارنر چھکا نہ لگاتے گیند اٹھا کر حفیظ کو واپس کرتے اور کہتے ’میں بہت دلیر کھلاڑی ہوں، صرف اچھی گیند پر ہی چھکا ماروں گا، چاہے میری ٹیم ہار جائے میں ایسی گیند کو ہٹ کرکے اپنے اصولوں کے خلاف نہیں جاسکتا ، جیسے شیر بھوکا مر سکتا ہے لیکن مردار کا گوشت نہیں کھا سکتا (اب تو شیر بھی بیچارے یہ دعویٰ نہیں کرسکتے، زندہ رہنے کے لیے وہ بھی یہ اصول توڑ چکے ہیں)۔‘
اب ذرا اس سین کو الٹا کردیں، پاکستان کی بیٹنگ ہوتی، آسٹریلیا کی فیلڈنگ، پاکستانی بیٹر کو ایسی ہی گیند ملتی اور وہ چھکا مار دیتا تو کیا قوم پھر بھی یہی باتیں کرتی یا پھر میچ جیتنے کا جشن مناتی اور اس اسٹروک کو ہمیشہ یاد رکھتی؟ اگر اس کا جواب ہاں میں ہے تو وارنر پر تنقید بے جا ہے۔
آئی سی سی کے قوانین کے مطابق اگر گیند دو یا اس سے زائد ٹپے کھاکر بیٹر تک پہنچے تو امپائر اسے نو بال قرار دے سکتا ہے اور بیٹر اس پر شاٹ بھی کھیل سکتا ہے اور اس گیند پر بنائے جانے والے رنز بھی گنے جائیں گے۔ جب انٹرنیشنل کرکٹ قوانین میں یہ کوئی گناہ نہیں تو وارنر کیوں بلا وجہ اخلاقیات کا مظاہرہ کرتے اور ٹیم کو مشکل میں ڈالتے۔ وارنر کھیل کے قانون سے واقف تھے اس لیے انہوں نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔
کرکٹ کا میدان اُس وقت میدانِ جنگ سے کم نہیں تھا، دونوں ہی ٹیمیں سر دھڑ کی بازی لگانے کو تیار تھیں ایسے میں وارنر سے اخلاقیات کے مظاہرے کا تقاضہ ناجائز ہے۔
یہ تو وہی بات ہوگئی کہ سرحد پر کھڑا کوئی فوجی اگر دشمن پر گولی چلانے سے قبل انسانیت کا سبق یاد کرنے لگے تو پھر اس نے ملک کا دفاع کرلیا۔
ہاں اگر اخلاقیات دیکھنی ہیں تو وارنر کے ملک میں جاکر دیکھیں، دیکھیں کیسے وہاں انسانی حقوق، مساوات، ایمانداری اور عدل کی ٹھوس بنیادوں پر آسٹریلوی قوم باوقار انداز سے کھڑی ہے اور پھر ذرا اخلاقیات کا درس دینے والی اپنی قوم کے اعمال پر بھی نظر ڈال لیجیے گا (کرپشن، ملاوٹ، رشوت، ناانصافی، میرٹ کا قتل عام اور بہت کچھ) ۔ اخلاقیات کا مظاہرہ جہاں ضروری ہے وہاں کریں، کھیل کے میدان میں کھیل کو ہی مدنظر رکھیں۔
وارنر کی جانب سے حفیظ کی ڈبل ٹِپ گیند پر چھکے پر تو سب ہی تنقید کررہے ہیں اور انہیں اخلاقیات اور اسپورٹس مین اسپرٹ کا سبق یاد کرا رہے ہیں لیکن کچھ دیر بعد جب شاداب کی گیند پر وارنر کو رضوان کے ہاتھوں غلط کیچ آؤٹ دیا گیا تب نہ رضوان اور نہ ہی کسی دوسرے پاکستانی کھلاڑی کی اسپورٹس مین اسپرٹ جاگی کہ وہ یہ کہہ دے کہ وارنر بھائی آپ آؤٹ نہیں ہیں آجائیں دوبارہ بیٹنگ کریں۔
چلیں کھلاڑی تو شاید میچ جیتنے کے آسرے میں خاموشی سے اس آؤٹ کو ’پی‘ گئے لیکن وارنر کو درس دینے والے شائقین کرکٹ کو بھی اس معاملے پر سانپ سونگھ گیا اور وہ اس کا کوئی تذکرہ ہی نہیں کررہے، کیا یہ دہرا معیار نہیں؟
اخلاقیات کی بات چل نکلی ہے تو یہ کہاں کی اخلاقیات ہیں کہ بیمار کھلاڑی کو جو حال ہی میں آئی سی یو سے آیا ہو اسے میچ کھلوادیں، ٹیم کے لیے کچھ کر گزرنے کا رضوان کا جذبہ بے شک قابل قدر ہے لیکن اخلاقیات کا تقاضہ کیا تھا؟ کہ ایک بیمار کھلاڑی کو میدان میں اتارنے کے بجائے اسکواڈ میں شامل کسی فٹ کھلاڑی کو موقع دے دیتے۔
اب کہنے والے کہیں گے کہ یہ کیا بات کردی، رضوان نے تو 67 رنز کی اننگز کھیلی اگر وہ نہیں ہوتے ٹیم میں تو کیا ہوتا، کیا ہوتا؟ جو اب ہوا وہی ہوتا، پاکستان میچ ہار جاتا، یا شاید جو دوسرا کھلاڑی آتا وہ بھی اچھا کھیل جاتا، ہونے کو تو کچھ بھی ہوسکتا تھا لیکن پیشہ وارانہ سوچ کیا کہتی ہے؟ یہی کہ اگر کوئی کھلاڑی ان فٹ ہے یا بیمار ہے تو اسے آرام دیا جائے اور اسکواڈ میں شامل کسی دوسرے کھلاڑی کو موقع دیا جائے۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو دو ہی باتیں ہوسکتی ہیں۔ پہلی یہ کہ ٹیم کی جیت کی ساری امیدیں رضوان سے باندھ لی گئی تھیں اور دوسری یہ کہ اسکواڈ میں کوئی کھلاڑی ایسا نہیں تھا جو رضوان کی جگہ لے سکتا حالانکہ کرکٹ بورڈ کے مطابق تو سارے ہی کھلاڑی میرٹ پر سلیکٹ ہوئے تھے۔
ایک بات اور، رضوان کی کارکردگی اس ٹورنامنٹ میں بلاشبہ ناقابل فراموش رہی لیکن آسٹریلیا کیخلاف انہوں نے 52 گیندوں پر 67 رنز بنائے، یعنی تقریباً 9 اوورز کھیل کر رضوان نے 67 رنز بنائے۔ معذرت کے ساتھ کوئی بھی کھلاڑی اگر 9 اوورز وکٹ پر کھڑا ہو تو اتنے رنز بنا ہی لے گا، ٹی ٹوئنٹی میں اسے سست بیٹنگ کہا جاتا ہے حب الوطنی کا چشمہ اتار کر دیکھا جائے تو۔
ہمارے ہیرو، اسپیڈ اسٹار شعیب اختر نےبھی میچ سےقبل کہا کہ ’رضوان کو چاہے انجیکشن ٹھونکیں لیکن میچ کھلائیں‘، معذرت کے ساتھ لیکن یہ پروفیشنل اپروچ نہیں۔ اسی ٹورنامنٹ میں ہم نے دیکھا کہ مختلف ٹیموں کے اہم کھلاڑی انجرڈ ہوئے اور ٹیم سے باہر ہوئے، ان کی جگہ دوسرے کھلاڑی نے لے لی، ایسا دیکھنے میں نہیں آیا کہ کسی کھلاڑی کو زبردستی کھلایا گیا ہو۔
سیمی فائنل میں شکست کے بعد اگر ہلکی پھلکی کسی کی برائی سنی ہے تو وہ حسن علی ہیں۔ کچھ نے لحاظ کیا کچھ نے کھلم کھلا کہہ دیا کہ حسن علی کے کیچ چھوڑنے کی وجہ سے میچ ہارے۔
حسن علی بے چارہ کیا کرے۔ شروع میچ سے سیمی فائنل تک بولنگ ان کی چلی نہیں، کپتان اور ٹیم منیجمنٹ نے وننگ اسکواڈ تبدیل نہ کرنے کو جیت کی کنجی سمجھتے ہوئے حسن کو سیمی فائنل بھی کھلا دیا، سیمی فائنل میں بھی وہ 4 اوورز میں 44 رنز بغیر کسی وکٹ کے کھاگئے۔ اس کے بعد باؤنڈری میں فیلڈنگ کرتے ہوئے ان کے ذہن میں تو یہی ٹینشن ہوگی کہ ورلڈ کپ کے بعد ان کی کارکردگی کا پوسٹ مارٹم ہوگا، حسن ان ہی سوچوں میں گم ہوں گے کہ میتھیو ویڈ کا کیچ اچانک سامنے آگیا اور ڈراپ ہوگیا۔
ٹھہریے! ممکن ہے ایسی بات نہ ہو اور کیچ کا ڈراپ ہونا بس بدقسمتی ہو لیکن ٹیم کے اسٹرائیک بولر شاہین شاہ آفریدی کو کیا ہوا کہ وہ اگلی تین گیندوں پر تین چھکے کھا گئے ، ان میں سے دو چھکے تو بالکل ہی غیر روایتی انداز میں ویڈ نے مارے۔ شکر ہے شاہد آفریدی نے وہی بات کردی جو ہم کہہ رہے تھے کہ اگر کیچ چھوٹ بھی گیا تو کیا آپ ایک ساتھ تین چھکے کھالیں گے؟
خیر ہار جیت تو کھیل کا حصہ ہے، ٹیم کو غلطیوں سے سیکھنا چاہیے لیکن جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ قومی ٹیم آسٹریلیا سے اچھا کھیل کر ہاری ان سے اختلاف ہے، 200 سے کم رنز بنائے تو ہار جائیں گے یہ ہر اگلا بندہ کہہ رہا تھا تو کیا کپتان بابر اعظم اور منیجمنٹ کو اس کا ادارک نہیں تھا اس پر سونے پر سہاگا مس فیلڈنگ اور آؤٹ آف فارم حسن علی کے 4 اوورز میں 44 رنز۔۔۔اسے اچھا کھیل کر ہارنا نہیں کہتے۔ غلطیاں ہوئی ہیں اور آسٹریلیا جیسی ٹیم ان ہی غلطیوں کی تاک میں ہوتی ہے اور پھر وہ سنبھلنے کا موقع نہیں دیتی۔
ہمارے لیے حیرانی کی بات یہ بھی ہے کہ گزشتہ روز پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے ورلڈ کپ میں پاکستان ٹیم کے بنائے جانے والے ریکارڈز کی فہرست جاری کی جس میں ایک ریکارڈ یہ تھا کہ پاکستان ٹیم تاریخ میں پہلی بار مسلسل 6 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچز ٹیم میں کوئی بھی تبدیلی کیے بغیر کھیلی، یعنی آخری میچ میں شعیب ملک اور محمد رضوان کو کھلا کر اور آؤٹ آف فارم حسن علی کو ڈراپ نہ کرکے بڑا کارنامہ انجام دیا گیا، لیکن اس کارنامے کا فائدہ کیا ہوا؟ ٹیم ورلڈ کپ سے باہر۔ کسی نے پوچھا یہ کیا بات ہوئی پاکستان صرف ایک میچ ہار کر بھی باہر ہوگیا اب اسے کیا سمجھائیں فائنل جیتنے والی ٹیم کے علاوہ ساری ہی ٹیمیں برابر ہوتی ہیں، پہلے یا بعد سب ہی باہر ہوجاتی ہیں۔
آخر میں تذکرہ کپتان بابر اعظم کا، کرکٹ کی حالیہ تاریخ میں بابر اعظم جیسا مستقل مزاج بیٹر دوسرا کوئی نظر نہیں آتا، سیمی فائنل میں شکست کے بعد ان کی بھی کافی تعریف ہورہی ہے، خاص طورپر ان کے ڈریسنگ روم میں کیے گئے خطاب کی جہاں انہوں نے کہا کہ کوئی کسی پر انگلی نہیں اٹھائے گا، بطور ٹیم ہم برا کھیلے، کوئی کسی ایک شخص کو کچھ نہیں کہے گا۔
یہ الگ بات ہے کہ میچ کے فوری بعد گراؤنڈ میں بات کرتے ہوئے بابر اعظم یہ کہہ گئے کہ حسن علی کی جانب سے کیچ ڈراپ کیا جانا میچ کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا، آسٹریلیا جیسی ٹیم کو موقع دیں گے تو وہ میچ جیت جائے گی۔ شاید یہ سچ وہ شکست کے فوری بعد آنے والے غصے میں بول گئے اور بعد میں جذبہ حب الوطنی کے تحت انہوں نے ڈریسنگ روم میں تقریر کی جسے کافی سراہا گیا، لیکن جو لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ میچ کیوں ہارے وہ بابر کی یہ گفتگو اوپر لنک میں سن سکتے ہیں۔
کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرلینے سے خطرہ ٹل نہیں جاتا خطرے سے لڑ کر ابھرنا پڑتا ہے، آسٹریلوی ٹیم پیشہ وارانہ طور پر ہم سے بہت بہت اوپر ہے وہ یہ میچ میرٹ پر جیتے اور ہم غلطیاں کرکے ہارے۔
ہوسکتا ہے کہ بہت سے لوگ ہمارے مؤقف سے اتفاق نہ کریں لیکن حقیقت پسندی اور جذبہ حب الوطنی دو الگ چیزیں ہیں، حب الوطنی کی عینک لگاکر غلطیوں کو نظر انداز کرکے خوش ہونے سے بہتر ہے کہ حقیقت پسندی سے کام لے کر غلطیوں پر کام کیا جائے اور آئندہ انہیں نہ دہرایا جائے۔ ہمارے دیکھنے کا نظریہ الگ ہوسکتا ہے لیکن مقصد ایک ہی ہے، پاکستان کی بہتری ، جو غلطیوں پر پردہ ڈالنے سے نہیں آئے گی بلکہ ان کا اعتراف کرکے انہیں ٹھیک کرنے سے آئے گی۔