02 دسمبر ، 2021
جن دنوں ایک جج صاحب کی بحالی کیلئے وکلا تحریک چل رہی تھی، اُنہی دِنوں ایک سابق وزیر داخلہ کے ساتھ جاتی امرا جانے کا اتفاق ہوا،میاں صاحب آنے والے معزز مہمانوں کا اپنی رہائش گاہ کے باہر کھڑے خود استقبال کر رہے تھے، ہم بھی ان کے دائیں بائیں کھڑے ہو گئے، مہمانوں کی گاڑیاں تھوڑے تھوڑے وقفے سے آ رہی تھیں۔
ایک بڑی گاڑی آتی دکھائی دی جس کو ایک بیرسٹر صاحب ڈرائیو کر رہے تھے اور ساتھ والی سیٹ پر بلوچ کرد وکیل براجمان تھے، نواز شریف اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ڈرائیونگ سیٹ والی سائیڈ پر کھڑے تھے کہ اچانک نگاہ پڑتے ہی وہ دوسری سائیڈ پر چلے گئے تب تک بیرسٹر صاحب یوں نواز مخالف کے طور پر معروف نہیں تھے، اس لیے درویش کو حیرت ہوئی کہ میاں صاحب نے اچانک یوں رخ کیوں بدلا ہے؟ اندر کی بات کیا ہے؟
وکلا تحریک میں بیرسٹر صاحب کی جو حیثیت تھی، ہٹائے گئے چیف جج کے وہ جتنے قریب تھے، بلوچی کرد کی وہ حیثیت تو نہ تھی؟ ویسے بھی پروٹو کول کے باب سے کرد کی حیثیت سیکنڈ ہی کہی جا سکتی تھی، سوئی تا دیر اس بات پر اٹکی رہی کہ اندر کی وجہ کیا ہے؟ بعد ازاں ساری اصلیت سب کے سامنے آ گئی جسے دونوں فاضل وکلا کے پیہم سامنے آنے والے طرزِ عمل ہی نہیں، بیانات سے بھی ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
ایک طرف وہ صاحب تھے جنہوں نے میاں صاحب پر تنقید کرنے کا کبھی کوئی موقع ضائع نہیں جانے دیا، کلبھوشن یادیو، جو انڈین جاسوس ہے مگر حال ہی میں ہماری حکومت نے اسے قانونی مدد تک رسائی کیلئے پارلیمنٹ میں خصوصی قانون سازی کی ہے، جسے اپوزیشن منفی اسلوب میں بیان کرتے نہیں تھکتی حالانکہ حکومت کے کسی درست کام کی تحسین بھی کی جانی چاہیے
جتنی بھی قانون سازی ہوئی ہے EVMکی ووٹنگ سے لے کر پارلیمانی مباحث کی دھجیاں اڑانے تک، آپ جتنے چاہیں تنقیدی نشتر چلا لیں مگر وسیع تر قومی مفاد میں خطے میں نفرت کم کرنے کے لیے اگر انہوں نے یہ چھوٹا سا مثبت قدم اٹھایا ہے تو اس پر شور شرابے کی کیا ضرورت تھی مگر حیرت ہے اس زبان کے گنگ ہونے پر جو کبھی ببانگ دہل نفرت کی آخری سیڑھی تک گونجتی تھی، نواز شریف اس شخص کا صرف نام ہی اپنی زبان سے لے آئیں تو میں یہ کردوں گا وہ کر دوں گا۔
دوسری جانب عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں دوسرے فاضل دوست نے آمریت کی مخالفت اور جمہوریت کی والہانہ حمایت میں وہ تقریر کر ڈالی کہ منصفین اول انعام کا حقدار اس مقرر کو قرار دیں یا تین مرتبہ منتخب ہونے والے لیڈر کو، جس کے خطاب کو روکنے کیلئے کون سا حربہ ہے جو استعمال نہیں کیا گیا مگر کچھ کام نہ آیا۔
تازہ ارشاد ہے کہ ’’ججز کے سامنے ایک سزا یافتہ کو چیف گیسٹ بنانا، پیغام ہے کہ ڈاکہ مارنا ہے تو بڑا مارو‘‘۔پارسائی کا خود ساختہ دعویٰ اٹھائے کہہ دینا کہ ’’ہمارے ہاں کرپشن بری نہیں سمجھی جاتی‘‘، اسی لئے تو اپنے رفقا کو چھوٹ دے رکھی ہے مگر دعویٰ ہے کہ ’’خدا نے مجھے شہرت، پیسہ اور سب کچھ دیا، میں سیاست میں تبدیلی لانے کے لئے آیا‘‘، اس پر کئی دل جلے یہ کہتے ہیں کہ شہرت تو دی ہے مگر صلاحیت نہیں دی۔
حالت یہ ہے کہ ہمارا اتنا مہربان ملک جس کی پون صدی پر مبنی محبت بھری نوازشات کی تاریخ ہے، آج وہ بھی ہمارے ساتھ بھکاریوں جیسا سلوک کر رہا ہے تو اس کا کریڈٹ کس کو جاتا ہے؟ قوم یہ سوال ضرور اٹھاتی ہے کہ ATMمشین کون سی تھی، کس کس کو فائدہ پہنچا کر جہاز اڑائے جاتے رہے ہیں؟ مفت خوری کی عادت پڑ جائے تو بہت سے پیسے کے باوجود انسان کی عزت نہیں رہتی مگر یہ بات لوگوں کو کون سمجھائے کہ محض سلائی مشینوں سے اربوں نہیں کمائے جا سکتے۔
بات ہو رہی تھی عاصمہ جہانگیر کانفرنس کی، جس کے منتظمین کا استدلال ہے کہ قانونی برادری کے بڑے حصے کی نظر میں نواز شریف کو دی جانے والی سزا کے مقاصد سیاسی تھے۔ انہیں ضروری قانونی مواقع بھی فراہم نہیں کئے گئے۔
پرویز مشرف کے انٹرویوز تک ٹی وی پر چلنے دیے گئے۔ موجودہ حکومت میں صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ پاکستان آزادیٔ اظہار کے حوالے سے 180ملکوں کی فہرست میں 145ویں نمبر پر آ چکا ہے۔
دوسری طرف عاصمہ جہانگیر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فاضل قانون دان علی احمد کرد کا استدلال تھا کہ اگر ہماری عدالتیں انصاف فراہم کر رہی ہیں تو پاکستان عالمی برادری میں اس حوالے سے گر کر آج 134ویں نمبر پر کیسے آ چکا ہے؟ وہ بھی تو آخر اعلیٰ عدلیہ کا جج ہی تھا جس نے وکلا برادری اور میڈیا کے سامنے کھلے بندوں، اندر کے سارے پریشرز اور تلخ حقائق سینہ کھول کر بیان کر دیے تھے جس کی پاداش میں اسے اس معزز عہدے سے سبکدوش ہونا پڑا۔
جاننے والوں سے تب بھی کچھ پوشیدہ نہ تھا، آج پوچھا جا رہا ہے کہ ’’اصل آڈیو کہاں ہے؟ آڈیو ریکارڈ کرنے والوں نے ریلیز کی یا امریکا میں بیٹھے کسی آدمی نے؟ ایسی ریکارڈنگ کی صلاحیت کس کے پاس تھی؟‘‘
یہاں چوہے بلی کا کھیل آخر کب تک کھیلا جاتا رہے گا؟ 22کروڑ عوام ’’اگر اقتدار کا منبع و سرچشمہ ہیں تو پھر وہ کون ہیں جو ان 22کروڑ کو جہنم میں دھکیل کر بالفعل خود مقتدر اور بادشاہ گر بنے بیٹھے ہیں؟
آخر ہماری قسمت میں ایسی نارمل ریاست بننا کیوں نہیں لکھا جس میں 22کروڑ عوام اپنی تقدیر کے آپ مالک ہوں، جہاں آئین پارلیمنٹ، جمہوریت، انسانی حقوق اور آزادیٔ اظہار کا بول بالا ہو۔ اب وقت آ گیا ہے کہ گھٹاٹوپ اندھیرے کافور ہوں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔