بلاگ
Time 03 فروری ، 2022

احتساب پر سوالیہ نشان!

سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی میڈیکل رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’وہ انجیو گرافی کرائے بغیر لندن سے نہ جائیں، وہ اگرعلاج کے بغیر پاکستان گئے تو ان کی حالت بگڑ سکتی ہے۔ انہوں نے اپنی زیابیطس کو کنٹرول کرنے کے لئے روزانہ کی بنیاد پر Empagliflozion 10 شروع کی تھی جس کے نتیجے میں ان کے گردوں کے افعال خراب ہو گئے ہیں۔ کلثوم نواز کی وفات کے بعد وہ شدید ذہنی دبائو میں ہیں جس سے ان کی بیماری مزیدبگڑ سکتی ہے۔

وہ ذہنی دبائو کے بغیر اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ کھلی فضا میں چہل قدمی کریں،ادویات جاری رکھیں،کوروناوائرس کی عالمی وبا کو دیکھتے ہوئے عوامی مقامات یا ہوائی اڈوں پر جانے سے گریز کریں،وہ دل کے مریض ہیں اور کورونا سے ان کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے‘‘۔ امریکی ڈاکٹر کی میڈیکل رپورٹ جو ہائی کورٹ میںجمع کروائی گئی ہے، اسے پڑھتے ہوئے درویش یہ سوچ رہا تھا کہ بیماری سے نواز شریف کی جان کو خطرہ ہو نہ ہو۔ موجودہ سیاسی حالات میں اگر وہ پاکستان تشریف لانے کی غلطی کریں گے توخطرہ مزید بڑھنے کا احتمال ہو گا۔ 

ماقبل اپنی بیمار شریک حیات کو لندن چھوڑتے ہوئے وہ اپنی بیٹی کے ہمراہ جس شتابی کے ساتھ پاکستان آئے تھے، وہ کسی بھی طرح ان کا درست فیصلہ نہیں تھا۔اپنی کم بساطی کے باوجود ان کے دو قریبی احباب کو اس کے مضمرات گوش گزار کرنے کی کاوش بھی کی تھی لیکن یہ بتایا گیا تھا کہ اگر وہ نہ آئے تو ان کے سیاسی کیریئر پر دھبہ لگے گا اور انتخابی شکست کی صورت میں پارٹی میں اس نوع کی آوازیں اٹھ سکتی ہیں کہ قیادت کے بیرون ملک ہونے کی وجہ سے پارٹی کو اتنابڑا نقصان سہنا پڑا۔ اس زاویہ نگاہ میں وزن سے انکار ممکن نہیں لیکن بے وزن دوسرا پہلو بھی نہیں۔

 ان کے اس کسمپر سی میں آنے سے پارٹی مورال یا انتخابی مہم پر فرق صرف اس صورت میں ہی پڑ سکتاتھااگر انہیں انتخابی جلسوں کے ذریعے عوامی رابطے کا مناسب موقع دیاجاتا ۔ سب پر واضح تھا کہ انہیں ایئر پورٹ سے ہی گرفتار کر کے جیل ڈال دیا جاناہے۔ وقت ہمیشہ ایک سا نہیںرہتا،اس کائنات میںثبات صرف ایک تغیر کو حاصل ہے مگر بدقسمتی یہ ہے کہ جو جس وقت اقتدار پر بیٹھا ہوتا ہے اس کی آنکھیں چندھیائی ہوتی ہیں۔

کیا المیہ ہے کہ سچے، کھرے اور قوم کے لیے حقیقی و تعمیری کام کر گزرنے والے مخلص لوگ منفی پروپیگنڈے کے ذ ریعے یہاں غدار قرار پاتے رہے ہیں ۔ہمارے عدالتی نظام کو ہی ملاحظہ فرمالیا جائے یہاں جیلوں میں مہینوں اور برسوں ایسے ایسے بے گناہ لوگ سڑ رہے ہوتے ہیں جن کابال برابر جرم نہیں ہوتا جبکہ اصل مجرم اور قاتل سماج میں دندنا رہے ہوتے ہیں۔ 

جنگ جیو جیسے ملک کے سب سے بڑے صحافتی ادارے کے سربراہ میر شکیل الرحمٰن کی نیب یا احتساب کورٹ سے حالیہ بریت کو بطور مثال پیش کیا جا سکتاہے ،34برس قبل کی پراپرٹی خریدکو اسکینڈلائز کرتے ہوئے ان کی ڈرامائی گرفتاری عمل میں لائی گئی حالانکہ احتساب کا اپناقانون دوران تفتیش ایسی گرفتاری کی اجازت نہیں دیتا۔وہ گلیاں جن کا بالفعل وجود ہی نہیں تھا،جن کا ایکٹ ہی ابھی نہیں بناتھا، اسے ان کاجرم بناکر یوں پیش کیا گیا کہ نجانے کونسا قومی خزانہ لوٹ لیا گیا ہے! 

بالآخر احتساب عدالت کا جج یہ لکھنے پر مجبور ہو گیا کہ میر صاحب کے خلاف الزامات محض مفروضہ ہیں جب کوئی جرم ہی نہیں ہو ا تو اعانتِ جرم کہاں سے آ گئی، ناکافی مواد کے سبب ریفرنس کا ٹرائل جاری رکھنا لاحاصل مشق ہو گی۔میر صاحب تو کوئی سیاسی آدمی نہیں تھے اور نہ ہی ان کی کسی سیاسی جماعت یا شخصیت سے کوئی ذاتی یا نظریاتی دشمنی تھی تو پھر بنا ثبوت ایک بے گناہ شخص کو پورے آٹھ مہینے جیل میں بند رکھنے والوں کو سزا کیوں نہ ملے، جنہوں نے گھنائونے الزامات لگائے، بیمار بھائی سے ملاقات پر قدغنیں لگائیں، مینٹلی ٹارچر کیا، کیا وہ انصاف ، سوسائٹی اور انسانیت کے مجرم نہیں؟

نیب احتساب کے نام پر بے گناہ شرفاء و معز زین کوجو اذیتیں پہنچاتا رہا تو کیا کسی نے یہ سوچا کہ جن کے ایما پر یہ سب کچھ ہوتا رہا، ان کا احتساب کیونکر اور کیسے ہونا چاہیے؟ یہاں تین مرتبہ منتخب ہونے والے عوامی قائد کے ساتھ جو ذلت آمیز سلوک روا رکھا گیا ، کیا مہذب اقوام میں ایسی کوئی مثال دی جا سکتی ہے۔پاناما کیس میں یہاں چار سوسے زیادہ نام سامنے آئے تھے، جب پاناما سے کچھ نہ ملا تو اقاماکے نام پر سزاسنادی گئی،اور پھر جب اسی سے ملتا جلتا پنڈور ا سکینڈل آیا تو تمام زبانیں گنگ ہوکر رہ گئیں۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہاں سچائی کا نہیں پروپیگنڈے کا دور دورہ ہے۔

سچائی تو یہ ہے کہ یہاں تمام تر مفاداتی کھیل کھیلے جا رہے ہیں یہاں صداقت و امانت کے خطابات بھی حسبِ مفاد بانٹے جاتے ہیں،احتسابی اداروں کا یہ حال ہے کہ انتقامی کارروائیوں اور جھوٹی الزام تراشیوں کی بیسیوں مثالیں دی جا سکتی ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔