02 مارچ ، 2022
روس نے 24 فروری 2022 کو یوکرین پر حملہ کیا جس کے بعد سے اب تک یوکرین میں جنگ جاری ہے۔
امریکا، برطانیہ، یورپی یونین اور نیٹو کے اقدامات (جنہیں روس اشتعال انگیز قرار دیتا ہے) کے بعد جنگ کا دائرہ وسیع ہونے کا امکان ہے اور مذاکرات میں پیشرفت نہ ہونے کے بعد روس نے حملے بھی تیز کردیے ہیں۔
یوکرین میں داخل ہونے والے عسکری دستوں میں مسلم اکثریتی آبادی پر مشتمل روس کی نیم خودمختار ریاستوں داغستان اور چیچنیا کے اہلکار بھی شامل ہیں۔
ان دستوں میں مسلم فوجیوں کی بڑی تعداد شامل ہے تاہم دلچسپ امر یہ ہے کہ ان دو ریاستوں یعنی چیچنیا اور داغستان میں روس کو کئی دہائیوں تک علیحدگی پسندوں کی جانب سے مسلح مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
تو کیا وجہ ہے کہ ماضی میں ایک دوسرے سے جنگیں کرنے والے یوکرین کی جنگ میں متحد نظر آرہے ہیں؟ آئیے اس کا تاریخی پس منظر جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
روس اور چیچنیا کے درمیان تنازع صدیوں پرانا ہے اور اس کا آغاز 18 ویں صدی کے آخر سے ہوتا ہے۔
داغستان اور چیچنیا سمیت کئی مسلم اکثریتی علاقے شمالی قفقاز کے خطے میں شامل ہیں اور یہی خطہ ماضی میں روسی استعمار کے خلاف جنگ کا حصہ بنا رہا ہے۔
18 ویں صدی سے ہی یہاں روس کے خلاف امام شامل کی قیادت میں مزاحمت شروع ہوئی جس کا مقصد خودمختاری اور اسلامی شناخت کو بچانا تھا۔
امام شامل شمالی قفقاز کے مسلمانوں کے ایک عظیم رہنما تھے جن کی قیادت میں انہوں نے روسی استعمار کے خلاف جنگِ قفقاز میں بے مثل شجاعت کا مظاہرہ کیا۔ وہ داغستان اور امامت قفقاز کے تیسرے سربراہ اور نقشبندی سلسلے کے تیسرے امام تھے۔
قفقاز کے یہ علاقے روسی قبضے سے قبل ایرانی اور سلطنت عثمانیہ کے زیر تسلط رہے ہیں، داغستان اور چیچنیا کے مسلمان قبائلیوں نے روسی افواج کے خلاف طویل عرصے تک مزاحمت کی اور روس کو اس علاقے پر قبضے میں کئی سال لگ گئے۔ یہاں شورش 1859 تک جاری رہی اور پھر امام شامل کو ہتھیار ڈالنے پڑے۔
اس کے بعد 1917 میں ایک بار پھر چیچن عوام نے آزادی کیلئے ہتھیار اٹھائے اور کوہ قاف سمیت دیگر علاقوں پر آزاد حکومت کے قیام کا اعلان کیا لیکن سوویت یونین کے قیام کے بعد یہاں مزاحمت دم توڑ گئی۔
اس کے بعد بھی چیچنیا سوویت یونین کے ظلم و ستم کا شکار رہا تاہم 1991 میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد چیچنیا اور داغستان میں علیحدگی پسند تحریکیں دوبارہ سر اٹھانے لگیں اور روس نے ایک بار پھر علیحدگی پسندوں کیخلاف جنگ شروع کردی۔
1991 میں سوویت یونین کی بنیادیں ہلنا شروع ہوئیں تو سوویت فوج میں شامل چیچن جنرل جوہر دودائیف نے سوویت انتظامیہ کو دارالحکومت گروزنی سے باہر کردیا اور سوویت یونین کے ٹکڑے ہوتے ہی آزادی کا اعلان کردیا۔
اس اعلان کو روسی حکومت نے ماننے سے انکار کردیا اور 3 سال تک گروزنی کی اقتصادی ناکہ بندی کیے رکھی لیکن مطلوبہ نتائج نہ ملنے پر روس نے چیچنیا پر چڑھائی کردی اور 1994 میں روسی فوج چیچنیا میں داخل ہوئیں اور دارالحکومت گروزنی کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔
اس جنگ میں ہزاروں چیچن مارے گئے اور لاکھوں زخمی ہوئے۔ چیچن جنگجوؤں کے گوریلا حملوں نے 1996 میں روسی حکومت کو جنگ بندی پر مجبور کیا اور دونوں کے درمیان امن معاہدہ ہوا اور طے پایا کہ روسی افواج گروز نی سے نکل جائیں گی اور چیچنیا کی الگ حیثیت کا فیصلہ 5 سال میں کیا جائے گا۔
اس عرصے میں علیحدگی پسندوں کی چیچنیا پر حکومت قائم رہی لیکن یہ معاہدہ بھی عارضی ثابت ہوا۔
ستمبر 1999 میں روسی دارالحکومت ماسکو میں دھماکے ہوئے جس میں 100 سے زائد افراد ہلاک ہوئے، موجودہ روسی صدر اور اُس وقت کے وزیراعظم ولادیمیر پیوٹن نے ان بم دھماکوں کا الزام چیچن علیحدگی پسندوں پر لگا کر ایک بار پھر گروزنی پر چڑھائی کردی۔
اس کے ساتھ ہی شمالی قفقاز کا خطہ ایک بار پھر جنگ کی لپیٹ میں آگیا۔
روس کی جانب سے بار بار گروزنی پر چڑھائی کی وجہ اس خطے کی جغرافیائی حیثیت اور معدنی دولت سے مالا مال ہونا ہے۔
چیچنیا میں تیل اور گیس کے وسیع ذخائر ہیں جنہیں روس کسی صورت ہاتھ سے نہیں جانے دے گا، اسی لیے روس نے 1999 میں ہی مشہور علیحدگی پسند رہنما احمد قادریوف سے بات چیت کا آغاز کیا اور ایک معاہدہ کیا۔
یہی معاہدہ روس اور چیچنیا کے درمیان ’امن‘ کا باعث بنا، چیچنیا کو روسی جمہوریہ چیچنیا کا درجہ ملا، روس نے قادریوف کی مکمل حمایت شروع کی اور انہیں علیحدگی پسند تحریک کو دبانے کیلئے مدد بھی فراہم کی۔
2003 میں احمد قادریوف متنازع الیکشن میں روسی جمہوریہ چیچنیا کے پہلے صدر منتخب ہوئے تاہم 9 مئی 2004 کو گروزنی میں ایک یادگاری تقریب کے دوران ہونے والے بم دھماکے میں وہ مارے گئے۔
اس کے بعد بھی شورش زدہ علاقوں میں علیحدگی پسندوں کے خلاف روس کا آپریشن جاری رہا اور 2007 میں احمد قادریوف کے بیٹے و موجودہ چیچین سربراہ رمضان قادریوف کو روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے جمہوریہ چیچنیا کا قائم مقام صدر نامزد کیا جس کی بعد میں چیچن پارلیمنٹ نے توثیق کی اور وہ باقاعدہ صدر بن گئے۔
روس سے معاہدے کی وجہ سے چیچنیا باقاعدہ طور پر روس کا جمہوریہ بن گیا اور اسے نیم خودمختاری دی گئی۔
روس نے 2009 میں چیچنیا میں فوجی آپریشن ختم کرنے کا اعلان کیا لیکن علیحدگی کی تحریک پھر بھی جاری رہی اور کافی حد تک رمضان قادریوف نے اس پر بزور قوت قابو پایا۔
روسی جمہوریہ کے سربراہ رمضان قادریوف پر مغربی ممالک انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے الزامات بھی عائد کرتے ہیں اور ان پر ملک میں مخالفین سے سخت برتاؤ کا بھی الزام ہے۔
اس وقت روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن جمہوریہ چیچنیا کے کمانڈر انچیف ہیں اور جمہوریہ چیچنیا کے سربراہ رمضان قادریوف ہیں، دونوں کے آپس میں گہرے تعلقات ہیں اور انہیں پیوٹن کا اہم ساتھی سمجھا جاتا ہے۔
روس کا جمہوریہ ہونے کے باوجود چیچنیا میں کچھ اسلامی قوانین بھی نافذ ہیں۔ اس کے ساتھ ہی تباہ شدہ ملک کا دوبارہ سے انفراسٹرکچر بھی بنایا گیا ہے اور گروزنی میں ایک بڑی جامع مسجد بھی بنائی گئی ہے۔
معاشی اعتبار سے بھی چیچنیا تیزی سے ترقی کا دعویٰ کرتا ہے اور یہاں روسی کرنسی نافذ ہے۔
چیچنیا 2014 میں کریمیا سے روس کے الحاق کا بھی حامی تھا اور اب روس کے یوکرین پر حملے کی بھی کھل کر مکمل حمایت کررہا ہے۔ مسلم اکثریت پر مشتمل نیم خودمختار ریاست نے اپنے فوجی بھی یوکرین میں بھیج رکھے ہیں۔
گزشتہ دنوں ہی رمضان قادریوف نے گروزنی میں 12 ہزار فوجیوں کا اجتماع کیا اور ملک (روس) کے دفاع کے عزم کے ساتھ ساتھ یوکرینی صدر کو دھمکی بھی لگائی۔
اس کے علاوہ ایک اور مسلم اکثریتی آبادی والے روسی جمہوریہ داغستان کے فوجی بھی یوکرین کے خلاف جنگ میں شریک ہیں۔