15 مارچ ، 2022
کراچی: سندھ ہائیکورٹ میں عدالتی حکم کے باوجود پولیس انسپکٹرز کو قانون کے مطابق ترقیاں نہ دینے کے خلاف درخواست کی سماعت ہوئی جس میں آئی جی سندھ کے متضاد بیانات پر عدالت نے شدید برہمی کا اظہار کیا۔
سندھ ہائیکورٹ میں عدالتی حکم کے باوجود پولیس انسپکٹرز کو قانون کے مطابق ترقیاں نہ دینے کے خلاف درخواست کی سماعت ہوئی.
آئی جی سندھ کے متضاد بیانات پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا جب کہ سیکرٹری سروسز نے عدالت کو بتایا کہ عدالتی احکامات پر درخواست گزاروں کی ترقی کے حوالے سے 12 مارچ کو میٹنگ ہوئی تھی۔
دورانِ سماعت سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ اب اگر درخواست گزاروں کو سنیارٹی لسٹ پر اعتراض ہے تو سروس ٹربیونل سے رجوع کریں۔
درخواست گزاروں کے وکیل نے کہا کہ آئی جی سندھ جان بوجھ کی عدالتی احکامات کو نظر انداز کررہے ہیں، دیگر ملکوں کی طرح کے پی کے میں بھی پولیس رولز 1934 پر عمل درآمد ہورہا ہے، کراچی میں صرف پولیس رولز پر عمل درآمد نہیں ہورہا ہے۔
جسٹس آفتاب گورڑ نے ریمارکس دیے کہ ہم بہت سادہ بات کررہے ہیں، عمل درآمد رپورٹ پیش کریں، اگر لسٹ کے مطابق ترقیاں ثابت نہیں ہوئیں تو آئی جی سندھ پر یہیں توہین عدالت کی فرد جرم عائد کریں گے۔
جسٹس آفتاب احمد نے ریمارکس دیے کہ قتل میں ملوث ایس ایچ اوز بھی عہدے انجوائے کررہے ہیں، انسپکٹر منظور چانڈیو نے تین افراد کا قتل کیا اور غریبوں سے کمپرومائز کرلیا ہے اس کو سزائے موت ہوئی تھی، کمپرومائز کا مطلب بریت نہیں اعتراف جرم ہے، آپ فورس کے سربراہ ہیں، کرمنل پولیس افسران کے خلاف کارروائی آپ کی ذمہ داری نہیں؟ آپ کے افسران زمینوں پر قبضے کررہے ہیں، غریبوں کا مال کھا رہے ہیں کیا جرائم میں ملوث افسران کو فری ہینڈ دے دیا ہے ؟ جرائم میں ملوث اہلکار اور افسران اپنی مرضی کی پوسٹنگ بھی لے لیتے ہیں۔
عدالت کی جانب سے مسلسل سرزنش پر آئی جی سندھ خاموشی سے سر ہلاتے رہے۔
عدالت نے درخواست گزاروں کے وکیل کو ہدایت کی کہ 17 مارچ تک سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی سینیارٹی لسٹ عدالت میں پیش کریں۔