بلاگ

1973 تاحال: آئینی بحران در بحران

قارئین کرام! ملک میں اک بار پھر جاری آئینی بحران کی کیفیت بہت حساس ہے۔ تمام پاکستان خصوصاً (خدا خیر فرما) نئی نسل جتنا سمجھ سکے سمجھ لے، اور سمجھ کر بمطابق اپنے قومی جذبے اور سوچ میں تبدیلی لے آئے۔ کچھ سمجھ نہ آئے یا سمجھ کر خود ذرا بھی تبدیلی نہ لا سکے تو اللّٰہ خیر کرے کہ وہ ہی بڑی حکمت والا ہے۔

 وقت تو بالکل تیل اور تیل کی دھار دیکھنے والا نہیں۔ یہ تو اب بحث طلب ہے ہی نہیں کہ حضرت قائد اعظمؒ کے بعد قائد ملت لیاقت علی خان سمیت متحدہ اور باقیماندہ پاکستان میں کوئی ایک سیاسی لیڈر بھی ایسا نہیں آیا جو متنازعہ نہ رہا ہو۔ کیا منتخب اور سول قیادتیں اور کیا فوجی ڈکٹیٹرز، پاکستان کے پہلے عام انتخابات 1970ء ایک متفقہ لیگل فریم ورک آرڈر کی بنیاد پر ہوئے تھے، جسے انتخاب میں حصہ لینے والی ملک بھر کی تمام سیاسی جماعتوں نے تسلیم کرکے خود کو انتخاب میں حصہ لینے کا اہل بنایا تھا۔

 یہ مکمل تسلیم شدہ انتخابی بنیاد اس امر کی ضمانت دیتی تھی کہ الیکشن کے نتیجے میں جوبھی نیا ملکی آئین بنا اور منتخب حکومت تشکیل ہوگی وہ پاکستان اور اس کی نظریاتی حیثیت سے کسی طور پر متصادم نہیں ہوگی جس کو ’’لیگل فریم ورک آرڈر‘‘میں واضح کیا گیا تھا۔ ان پہلے ملکی عام انتخابات کے نتیجے میں جو منتخب قومی اسمبلی وجود میں آئی اس نے تشکیل حکومت سے پہلے آئین سازی کا کارِ عظیم انجام دینا تھا۔ ایسا آئین جو انتخاب میں حصہ لینے والی تمام جماعتوں کےاتفاق سے تیار ہونا تھا اور حکومتی لیگل فریم ورک آرڈر سے متصادم نہ ہوتا۔

 لیکن ہوا یہ کہ جب بحیثیت مجموعی تشکیل حکومت کے لیے (سوفیصد یقین) حاصل کرنے والی اکثریت مشرقی پاکستان تک محدود عوامی لیگ کو حاصل ہوئی تو مغربی پاکستان کی اکثریتی جماعت پیپلز پارٹی جس نے یقیناً اپوزیشن کی پارلیمانی حیثیت اختیار کرنی تھی، کے قائد ذوالفقار علی بھٹو نے واضح اعلان کیا کہ ہم اپوزیشن میں نہیں بیٹھیں گے۔ کسی سے سنی پڑھی خبر نہیں، میرے (ناچیز کے) کانوں نے پنجاب اسمبلی کی سیڑھیوں پر پی پی کی ریلی سے خطاب کرتے خودبھٹو کو کہتے سنا اور آنکھوں سے دیکھا کہ ’’مجیب نے مشرقی پاکستان میں اکثریت لی ہے تو یہ نہ سمجھنا ہم اپوزیشن میں بیٹھیں گے، مغربی پاکستان کی چابی میری جیب میں ہے‘‘۔ (عین الفاظ کے حوالے سے کوئی فرق ہوسکتا ہے، مفہوم مکمل یہ ہی تھا۔

 ان کا یہ بیان وقت کے اخباری ریکارڈ میں محفوظ ہے) انہوں نے یہ الفاظ اپنی جیب پر ہاتھ لگاتے ہوئے ادا کئے تھے۔ اسی خطاب میں انہوں نے زیڈ اے سلہری، جو ٹرسٹی اخبار پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر تھے کو ’’فکس اپ‘‘ کرنے کی دھمکی دہرائی، جو فقط دھمکی نہ تھی، اقتدار میں آتے ہی ان کا پہلا انتظامی اقدام بطور صدر اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر یہ ہی تھا کہ زیڈ اے سلہری کو ایڈیٹر شپ کے عہدے سے ہٹا دیا، لیکن انتخابی مہم میں نیشنل پریس ٹرسٹ کو ختم کرنے کے کتنے ہی وعدوں کے باوجود اسے قائم رکھا حتیٰ کہ آئین 1973ء کی متفقہ منظوری اور اطلاق کے بعد بھی، اور بلکہ اپنے خاتمہ اقتدار تک ٹرسٹ قائم رکھا جو ایوب خان نے مخالف اخبارات کو حکومتی تحویل میں لے کربنایا تھا۔ 

پھر 1965ء کی جنگ میں نافذ ہوئی ایمرجنسی تادم خاتمہ حکومت ختم نہ کی اور اسی کے سہارے اپنے پورے دور میں (نفاذ آئین کے بعد بھی) آزاد صحافت کا گلا گھونٹے رکھا۔ اپوزیشن کے بھرپور تعاون سے موجودہ متفقہ دستور کی تیاری اور منظوری کے ایمی جیٹ بیک گرائونڈ میں جنرل یحییٰ سے گٹھ جوڑ کرکے ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی جو ’’کامیاب‘‘ مزاحمت مغربی پاکستان سے ہوئی اس سے جس طرح ملک ٹوٹا اور جن المیوں نے جنم لیا وہ ہماری تاریخ کا عبرتناک اور سیاہ باب ہے لیکن عبرت پھر بھی نہ پکڑی۔ پاکستان کی سخت جانی کہہ لیں یا پوٹنشل، اصل حقیقت واقعی اس کا مملکت خداداد ہونا ہی ہے کہ باقیماندہ پاکستان اتنے بڑے اور مسلسل سیاسی اور سیاسی عسکری کھلواڑ کے باوجود بانجھ تو نہیں ہوا، نہ اس میں طاقت پکڑنے اور ترقی کا عنصر مکمل ختم ہوسکا۔

 قریب نصف صدی سے باقیماندہ پاکستان میں آئین کی بالادستی، جمہوریت اور عوام کی خیر خواہی کے جھوٹے سیاسی نعروں پر جملہ حکومتیں آئین کےساتھ جو منافقت کرتی چلی آ رہی ہیں، اسی کا شاخسانہ ہے کہ آج 75 سال بعد بھی بھرپور وسائل اور صلاحیتوں کی حامل مملکت اپنے قیام کی شاندار تاریخ کے باوجود بڑے سیاسی واقتصادی بحران میں مبتلا ہے جس سے پورا سماجی ڈھانچہ جملہ مہلک امراض میں مبتلا ہے اور اس کی بنیادیں بھی ہلنے لگی ہیں۔

کتنا بڑا ستم ہے کہ 18 ویں ترمیم سے آئین کا حلیہ درست کرنے کے جو دعوے ہوئے اور کریڈٹ لیے، اس کے بعد بھی تصحیح شدہ آئین 1973ء میں فلور کراسنگ کی حیران کن گنجائش موجود ہے کہ سیاسی مہم جو کسی بھی وقت کسی بھی قیمت پر چلتی حکومت کو بغیر کسی واضح بڑے قومی عوامی مفادات کے اکھاڑ سکتے ہیں جس پر ان کے خلاف اس غیر اخلاقی شدید جمہوریت مخالف عمل کی سرکوبی تب ہوسکتی ہے جب یہ ایک بڑا سیاسی بحران پیدا کر چکے ہوں گے۔ ایسا ہے تو پھر عوام اسی جمہوریت اور آئین کا احترا م کیونکر کریں؟ اور ملک بچارا کدھر جائے؟ اس آئینی گنجائش پر عمران کی ملک میں شدید متنازعہ ہوتی حکومت، پاکستان کے دوستوں اور خیر خواہ ممالک میں ہی محترم و قبول ہے بلکہ بحیثیت مجموعی قیام امن عالم کے حوالے سے تیزی سے تسلیم ہوتی ملکی متنازعہ قیادت کا اکھاڑنا، ملکی جمہوریت اور عوام کو جو دے گا، وہ مایوس کن اور مکمل واضح ہے۔

تحریک عدم اعتماد منظور ہونے کے بعد اللّٰہ ہمارے ریاستی اداروں، انتظامیہ، پارلیمان، عدلیہ اور سب ہی کی عزت محفوظ رکھے، خدشہ ہے کہ رہے گی نہیں۔ رہیں سیاسی جماعتیں اور عجب الخلقت حکومتیں، جوتیوں میں دال بٹنے کے مناظر کا اندازہ مشکل نہیں۔ عمران خان کا آپے سے باہر ہونا اور قابلِ قبول امکانی پذیرائی کیا رنگ دکھائے گی۔ اس سے حکومتیں، سیاسی جماعتیں، عوام اور ملک ڈگمگاتا ہی رہے گا۔ نہ بھولا جائے ’’دشمن‘‘ ایسے بڑے اور دیرپا مذموم نتائج حاصل کرنے کے لیے گھات لگائے بیٹھا ہے۔ اگر ذمے داری کا کچھ احساس باقی رہ گیا ہے تو مولانا صاحب اپنے ڈنڈے بردار لشکر اور پی ٹی آئی ٹائیگر فورس کے پروگرام لپیٹ کر آئندہ الیکشن کے بااعتبار ہونے کی کوئی صورت نکالیں اور مدت سے کچھ ماہ قبل انتخابات پر بات چیت کر سکیں تو کرلیں نہیں تو کوئی اور ہی کرا دے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔