شہباز حکومت کے لیے کانٹوں کی سیج!

نئی حکومت کو داخلی و خارجی محاذ پر متعدد چیلنجز کا سامنا ہو گا۔ فوٹو: فائل
نئی حکومت کو داخلی و خارجی محاذ پر متعدد چیلنجز کا سامنا ہو گا۔ فوٹو: فائل  

شہباز شریف وزیراعظم پاکستان تو بن گئے ہیں لیکن موجود صورت حال کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ منصب ان کے لیے کسی بھی طور پر کانٹوں کی سیج سے کم نہیں ہو گا۔

عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد بننے والی مخلوط حکومت میں شامل جماعتیں بظاہر تو تمام تر توجہ عوامی مسائل حل کرنے پر مرکوز رکھنے کی باتیں کرتی نظر آ رہی ہیں لیکن یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ ایک دوسرے سے بالکل مختلف نظریات اور مسائل رکھنے والی جماعتوں کا اتحاد کس قدر دیرپا اور پائیدار ثابت ہوتا ہے۔

تحریک عدم اعتماد کے لیے بننے والے اپوزیشن اتحاد سے چند ماہ قبل بھی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے نام سے ایک اتحاد تشکیل دیا گیا تھا لیکن وہ چند ہی دنوں کا مہمان ثابت ہوا، کچھ دنوں کے وقفے کے بعد تمام اپوزیشن جماعتیں (جو اب حکومت کا حصہ ہیں) عمران خان کے خلاف دوبارہ متحرک ہوئیں اور اس سارے معاملے میں آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمان نے کلیدی کردار ادا کیا۔

وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد شہباز شریف کو داخلی و خارجی معاملات سمیت کئی چیلنجز درپیش ہوں گے اور انہیں ہر چیلنج کا برد باری اور سیاسی بصیرت سے سامنا کرنا پڑے گا ورنہ صرف 2 اضافی ووٹوں کے سہارے کھڑی حکومت کسی بھی وقت زمین بوس ہو سکتی ہے۔

شہباز شریف کو درپیش متوقع چیلنج

معاشی چیلنج

شہباز شریف کو حکومت میں آنے کے بعد جو سب سے بڑا چیلنج درپیش ہو گا وہ معاشی چیلنج ہو گا، اس میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کے ساتھ کیا جانے والے معاہدے کو ہینڈل کرنا سرفہرست ہو گا کیونکہ مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما جن میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال بھی شامل ہیں بارہا کہہ چکے ہیں کہ ہماری حکومت آئی تو سب سے پہلے آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدے کو ختم کریں گے کیونکہ اس معاہدے کے ذریعے پاکستانی کی معاشی خود مختاری کو آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ دیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ ملک میں بڑھتی مہنگائی اور بے روزگاری کو کنٹرول کرنے کے ساتھ نوکریوں کے لیے مواقع پیدا کرنا، صنعتوں کو بجلی و گیس کی فراہمی اور ٹیکس ریفارمز بھی نئی حکومت کے لیے کسی چیلنج سے کم نہیں ہو گا۔

سیاسی استحکام

شہباز شریف حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ملک میں سیاسی استحکام لانا بھی ہو گا کیونکہ پاکستان تحریک انصاف کے اراکین اسمبلیوں سے مستعفی ہو کر عوام میں جانے کا اعلان کر چکے ہیں، گورنر خیبر پختونخوا اور گورنر سندھ مستعفی ہونے کا اعلان کر چکے ہیں جبکہ گورنر پنجاب کے حوالے سے بھی اطلاعات ہیں کہ شہباز شریف کے وزیراعظم بننے کے بعد وہ گورنر کے عہدے سے مستعفی ہو جائیں گے۔

نئی حکومت کے لیے موجودہ ملکی سیاسی صورت حال میں سیاسی استحکام پیدا کرنا بھی ایک بڑا چیلنج ہو گا۔

کرپشن کا خاتمہ

حکومت میں شامل تمام جماعتیں پاکستان تحریک انصاف کے دور میں الزام لگاتی رہی ہیں کہ عمران خان کے دور حکومت میں کرپشن عروج پر پہنچ گئی، پہلے جو کام ہزاروں میں ہوتا تھا اب اس کام کے لاکھوں روپے لیے جاتے ہیں، ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کرپشن بڑھ گئی ہے، نئی حکومت کے لیے کرپشن کا خاتمہ اور اسے کنٹرول کرنا بھی ایک بڑا مشکل ٹاسک ہو گا۔

عوام دوست بجٹ

نئی حکومت کو اپنے قیام کے بعد تقریباً ایک سے ڈیڑھ سال کا عرصہ موجود ہو گا اور اس دوران حکومت نے وفاقی بجٹ پیش کرنا ہے، نگران سیٹ اپ سے پہلے ایک بہترین عوام دوست بجٹ پیش کرنا بھی شہباز شریف حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہو گا۔

الیکشن اصلاحات

نئی مخلوط حکومت کے اتحاد کا مرکزی مقصد آئندہ انتخابات کو صاف شفاف بنانے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں سے ملکر اصلاحات ہیں اور الیکشن اصلاحات حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہو گا کیونکہ پاکستان تحریک انصاف کا موقف ہے کہ’سارے چور‘ امریکا کی مدد سے حکومت میں آکر الیکشن چوری کرنے کا منصوبہ بنانا چاہتے ہیں۔

اس حوالے سے پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال کا کہنا ہے کہ انتخابی اصلاحات کے لیے پاکستان تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی جماعتوں سے مشاورت کریں گے لیکن اگر پاکستان تحریک انصاف کے اراکین اسمبلیوں سے استعفیٰ دیتے ہیں تو الیکشن کمیشن سے کہہ کر ان نشستوں پر فوری ضمنی انتخابات کروائیں گے۔

پاکستان تحریک انصاف نے نئی حکومت کو ماننے کے بجائے فوری طور پر انتخابات کی جانب جانے کا مطالبہ کیا ہے اور ان کا مطالبہ ہے کہ 90 روز کے اندر ملک میں عام انتخابات کروائے جائیں تاکہ عوام اپنی مرضی کی حکومت کو منتخب کر سکیں۔

دوسری جانب چیف الیکشن کمیشن کی سربراہی میں چند روز قبل ہونے والے اجلاس میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ملک میں حلقہ بندیوں کے لیے 3 سے 4 ماہ کا وقت درکار ہے جس کے بعد الیکشن کی تیاری ممکن ہے۔

بلوچستان کے مسائل

شہباز شریف کو بطور وزیراعظم جن اہم مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا ان میں سے ایک بلوچستان کے مسائل ہیں اور شہباز شریف کو بطور وزیراعظم منتخب کرانے والوں میں بلوچستان کے 10 ممبران قومی اسمبلی شامل ہیں جو کسی بھی وقت حکومت کا تختہ الٹنے کی طاقت رکھتے ہیں۔

بلوچستان میں سب سے بڑا مسئلہ لاپتہ افراد کا ہے، اس کے علاوہ بلوچستان میں سی پیک اور گوادر پورٹ جیسے میگا منصوبوں مقامی افراد کو نوکریوں کی فراہمی اور غیر ضروری چیک پوسٹوں کا خاتمہ بھی شامل ہے۔

خیبر پختونخوا کے مسائل

نئے حکومتی اتحاد میں خیبر پختونخوا سے محسن داوڑ اور علی وزیر بھی شامل ہیں جن کا ریاستی اداروں کے حوالے سے ایک واضح مؤقف رہا ہے۔ اس کے علاوہ خیبر پختونخوا میں افغان مہاجرین کو درپیش مسائل کا حل بھی نئی حکومت کے چیلنجز میں شامل ہو گا۔

خارجہ پالیسی

پاکستان تحریک انصاف نے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو امریکی سازش قرار دیا اور کہا کہ عمران خان کی حکومت کو تبدیل کرنے کے لیے ایک دھمکی آمیز مراسلہ بھیجا گیا، کہا گیا کہ اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب نہ ہوئی تو پاکستان کو اس کے سنگین نتائج بھگنا پڑیں گے اور اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گئی تو پاکستان کی غلطیوں کو درگزر کر دیا جائے گا۔

سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے حکومت کو گرانے کے لیے امریکی سازش کے الزامات کے بعد نئی حکومت کے لیے پاک امریکا تعلقات کو دوبارہ سے بحال کرنا بھی ایک چیلنج ہو گا۔

اس کے علاوہ بھارت سے تعلقات بھی نئی حکومت کے لیے اہم معاملہ ہو گا کیونکہ گزشتہ 3 سال سے پاک بھارت تعلقات تعطل کا شکار ہیں، کشمیر میں بھارتی دراندازی میں مسلسل اضافے کے بعد بھارت سے تعلقات بھی اہمیت کے حامل ہوں گے۔

نئی پاکستانی حکومت کو افغانستان کے ساتھ تعلقات کا ازسر نو جائزہ لینے کا چیلنج بھی درپیش ہو گا جبکہ چین اور روس کے ساتھ تعلقات بھی اہم ہوں گے۔ 

یہ وہ تمام بڑے چیلنجز ہوں گے جن کا شہباز شریف اور ان کی حکومت کو سامنا کرنا پڑے گا، نئی حکومت ان مسائل سے کیسے نبرد آزما ہوتی ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن ملکی موجودہ سیاسی صورت حال بتاتی ہے کہ نئی حکومت کے لیے حالات بالکل بھی آسان نہیں ہوں گے۔  

مزید خبریں :