کراچی کا 'بینائی' سے محروم سلائی مشین مکینک خصوصی افراد کیلئے عزم و حوصلے کی مثال

انسان میں سچی لگن اور جستجو ہو تو کوئی بھی کمزوری یا محتاجی منزل حاصل کرنے میں رُکاوٹ نہیں بن سکتی، اس کی روشن مثال کراچی کے علاقے ملیر میں نابینا سلائی مشین مکینک محمد راشد کی صورت میں موجود ہے۔

محمد راشد نابینا ہونے کے باوجود گزشتہ 25 برس سے ملیر لیاقت مارکیٹ میں سلائی مشین کی مرمت کا کام کررہے ہیں اور لوگ ان کی اس صلاحیت سے بہت متاثر ہوتے ہیں۔

جیو ویب سے گفتگو میں زندگی کے اوراق الٹتے ہوئے محمد راشد نے بتایا کہ میں پیدائشی طور پر نابینا نہیں تھا، بچپن میں بیماری اور بخار سے نظر متاثر ہونے لگی اور 10 سال کی عمر میں مکمل نابینا ہوگیا۔

متوسط طبقے سے تعلق رکھنے کے باعث راشد کے والدین مہنگا علاج تو نہ کرواسکے لیکن اپنی پوری کوشش جاری رکھی اور چند آپریشن بھی کروائے جو سودمند ثابت نہ ہوسکے۔

راشد کے والدین نے اپنے بیٹے کی بہت حوصلہ افزائی کی، والد نے بچپن سے ہی سلائی مشین کے خاندانی کام میں دلچسپی کے باعث انہیں تربیت دی۔

بچپن میں بینائی سے محرومی کے بعد والدین نے راشد کو معذور بچوں کے مخصوص اسکول میں داخل کروایا__فوٹو: جیو ویب
بچپن میں بینائی سے محرومی کے بعد والدین نے راشد کو معذور بچوں کے مخصوص اسکول میں داخل کروایا__فوٹو: جیو ویب

بچپن میں بینائی سے محرومی کے بعد والدین نے راشد کو معذور بچوں کے مخصوص اسکول میں داخل کروایا لیکن راشد خود کو معذور نہیں سمجھتا تھا اور لوگوں کی ہمدردی سمیٹنے کے بجائے اپنی صلاحیتوں سے زندگی میں آگے بڑھنا چاہتا تھا اسی لیے خصوصی بچوں کا اسکول چھوڑ کر والد کے ساتھ سلائی مشین کی مرمت کا کام سیکھا۔

ابتداء میں بہت دشواریاں پیش آئیں، بعض اوقات ہاتھ بھی بری طرح زخمی ہوجایا کرتے تھے، تو دوسری طرف لوگوں کی تنقید کا بھی سامنا تھا کہ کیسے نابینا شخص سلائی مشین کی مرمت کا تکنیکی کام کرسکتا ہے لیکن راشد نے لوگوں کو حیران کرتے ہوئے ان کی توقعات کے برعکس یہ ہنر سیکھا اور خود کو منوایا۔

راشد نے جیو ویب کو بتایا کہ والد کے انتقال کے بعد چچا نے سلائی مشین کا کام سیکھنے میں بہت مدد کی اور باقی کام سکھایا۔ اب راشد اپنے چار بھائیوں کے ہمراہ سلائی مشین کی مرمت کا خاندانی کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔

'2010 میں شادی ہوئی اور ایک بیٹا ہے'

راشد نے اپنی نجی زندگی کے حوالے سے بتایا کہ 2010 میں شادی ہوئی، اب انکا بیٹا 10 برس کا ہوگیا ہے اور پانچویں جماعت میں پڑھ رہا ہے۔

2014 میں کچھ افراد نے راشد سے رابطہ کیا اور بڑی تعداد میں سلائی مشین بیچنے کا جھانسہ دے کر 76 ہزار روپے کی رقم بٹور کر فرار ہوگئے تھے__فوٹو: جیو ویب
2014 میں کچھ افراد نے راشد سے رابطہ کیا اور بڑی تعداد میں سلائی مشین بیچنے کا جھانسہ دے کر 76 ہزار روپے کی رقم بٹور کر فرار ہوگئے تھے__فوٹو: جیو ویب

اپنے تلخ تجربے کا ذکر کرتے ہوئے راشد نے بتایا کہ 2014 میں کچھ افراد نے ان سے رابطہ کیا اور بڑی تعداد میں سلائی مشین بیچنے کا جھانسہ دے کر 76 ہزار روپے کی رقم بٹور کرفرار ہوگئے تھے۔ 

راشد شکوہ کرتے ہیں کہ حکومت کی جانب سے کبھی بھی کوئی امداد یا سرپرستی نہیں کی گئی، حکومت کو چاہیے کہ ایسے باہمت  افراد کو جو دوسروں کا محتاج بنے کی بجائے محنت اور باعزت طریقے سے زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں، کیلئے ایک ادارہ قائم کرے، جہاں انہیں پیشہ ورانہ تربیت اور ہنر سکھائے جائیں جس سے وہ دوسروں کے محتاج نہ رہیں، اس سلسلے میں ان افراد کیلئے کچھ مالی امداد کا بھی بندوبست کیا جانا چاہیے تاکہ خصوصی افراد خود اپنا کاروبار کرسکیں۔

محمد راشد نابینا ہونے کے باوجود ایک ایسے باہمت شہری ہیں جو دن رات محنت کرکے باعزت روزگار کما رہے ہیں__فوٹو: جیو ویب
محمد راشد نابینا ہونے کے باوجود ایک ایسے باہمت شہری ہیں جو دن رات محنت کرکے باعزت روزگار کما رہے ہیں__فوٹو: جیو ویب

محمد راشد نابینا ہونے کے باوجود ایک ایسے باہمت شہری ہیں جو دن رات محنت کرکے باعزت روزگار کما رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے حکومتی سرپرستی نہ ہونے کے باعث ایسے باہمت لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنے والا کوئی نہیں۔

سلائی مشین مکینک راشد کا بلند حوصلہ اور زندگی کا مقابلہ کرنے کی لگن ان افراد کیلئے روشنی کی ایک کرن کی مانند ہے جو معمولی معذوری کے باعث معاشرتی رویوں کے ڈر سے مایوسی کے اندھیروں میں خود کو دھکیل دیتے ہیں اور ناامیدی کا شکار ہوجاتے ہیں۔

مزید خبریں :