کراچی میں علم کی روشنی پھیلانے والا انوکھا 'بس اسکول'

 اسکولوں کی بات کی جائے تو  ذہن میں عالیشان عمارت اور کلاس میں بیٹھے یونیفارم میں ملبوس بچوں کا خیال آتا ہے لیکن کراچی میں ایک ایسا انوکھا 'بس اسکول'  ہے جہاں تعلیم کلاس رومز میں نہیں بلکہ چلتی پھرتی بس میں دی جاتی ہے۔

کراچی میں ڈاکٹر نسیم صلاح الدین گزشتہ 24 سالوں سے سٹیزن ایجوکیشن ڈویلپمنٹ فاؤنڈیشن (سی ای ڈی ایف) کے تحت کامیابی سے بس میں اسکول چلا رہی ہیں۔

مہنگائی کے دور میں جب والدین بچوں کو بہتر تعلیم دینے سے قاصر ہیں ایسے میں حیران کن طور پر ‘بس اسکول’ میں بغیر کسی فیس کے متوسط طبقے کے بچوں کو نہ صرف تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جارہا ہے بلکہ شخصیت سازی پر بھی خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔

جیو ویب سےگفتگو میں بس اسکول کی بانی ڈاکٹر نسیم صلاح الدین کا کہنا تھا کہ ملک کا سب سے بڑا المیہ یہ ہےکہ کروڑوں بچے تعلیم سے محروم ہیں، 1986 میں خیال آیا کہ ان بچوں کو تعلیم دینے کا سلسلہ شروع کیا جائے جو کبھی اسکول نہیں گئے اور نہ ہی جاسکتے ہیں، اس سوچ کے ساتھ کچی آبادیوں کے بچوں کو لیکر گھر سے تعلیم دینے کا آغاز کیا جس کیلئے ایک استاد کا بھی انتظام کیا، یہ سلسلہ وقت گزرنے کے ساتھ بڑھتا چلا گیا اور اس تعداد میں نمایاں  اضافے کے بعد سٹیزن ایجوکیشن ڈویلپمنٹ فاؤنڈیشن کے نام سے گروپ کی بنیاد رکھی گئی۔

فوٹو: جیو ویب
فوٹو: جیو ویب

ڈاکٹرنسیم کہتی ہیں یہ سلسلہ یہاں پر نہ رُکا اور ہم نے کچی آبادیوں کا رخ کیا اور ان علاقوں کی رہائشی پڑھی لکھی خواتین کو آمادہ کیا کہ اپنے گھروں میں 2 گھنٹے کے مختصر دورانیے کیلئے 15 سے 20 بچوں کو تعلیم فراہم کرنے میں کردارادا کریں تاکہ پسماندہ آبادیوں میں بھی بچےعلم حاصل کرسکیں۔

ڈاکٹر نسیم نے جیو ویب کو بس اسکول قائم کرنے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ کچی آبادیوں میں تدریسی عمل جاری رکھنے کے دوران اساتدہ اور اسکول کی جگہ تلاش کرنے میں دشواری کا سامنا تھا، اس وقت موبائل اسکول کا خیال آیا لہٰذا اس تصور پر عمل درآمد کرتے ہوئے 1998 میں پہلی موبائل اسکول بس تیار کی۔

انہوں نے بتایا کہ ابتدائی طور پر بس خریدنے کا عمل خاصا دشوار تھا پھر لوگوں کیلئے قابل قبول نہیں تھا کہ عمارت کے بغیر کیسے بس میں اسکول کامیاب ہوسکتا ہے، بالآخر مخیر حضرات کی مالی معاونت سے بس خریدی اور انتظامیہ سے بچوں کو تعلیم دینے کیلئے کلفٹن میں بس اسکول کی اجازت مل گئی۔

فوٹو: جیو ویب
فوٹو: جیو ویب

بس اسکول میں سرکاری اسکولز میں داخلہ دلوانے کیلئے معیار کے مطابق تعلیم دی جاتی ہے جبکہ داخلے کے بعد بھی ادارہ بچوں کی کاکردگی کا جائزہ لیتا رہتا ہے، اب تک بس اسکول سے 17 ہزار بچے نصابی سسٹم میں داخل ہوچکے ہیں جس میں سے بیشتر آج نرسنگ، ٹیچنگ اور انجینیئرنگ اور دیگر شعبوں سے وابستہ ہیں۔

حیران کن بات یہ ہے کہ اس بس اسکول میں پڑھانے والی ایک ٹیچر نے خود تعلیم کا آغاز اسی اسکول سے کیا اور گریجویشن کے بعد یہاں بطور ٹیچر خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔

ڈاکٹر نسیم کہتی ہیں کہ بس اسکول دیکھ کر لوگ بہت سراہتے ہیں جبکہ شہر سے دور علاقوں میں موبائل اسکولز مؤثر ثابت ہوسکتے ہیں اس حوالے سے حکومت کو چاہیے کہ موبائل اسکولز کی حوصلہ افزائی کرے تاکہ ملک سے ناخواندگی کا خاتمہ ممکن ہو۔

ڈاکٹر نسیم صلاح الدین کا کہنا تھا کہ یہاں سے تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کو کسی مقام پر دیکھ کر بہت خوشی محسوس ہوتی ہے، ہمارا مقصد بچوں کو محض تعلیم دینا ہی نہیں بلکہ آنے والی نسل میں علم کے ساتھ شعور بیدار کرنا بھی اولین ترجیح ہے۔

مزید خبریں :