06 مئی ، 2022
مسجد نبویؐ میں پیش آنے والے واقعہ نے مجھ سمیت ہر مسلمان کو غمزدہ کردیا ہے اور غم کی یہ ایک ایسی کیفیت ہے جو دور نہیں ہورہی۔ شرپسندوں نے روضہ اقدس کی سنہری جالیوں پر تحریر آیات، جس میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بارگاہِ رسالتﷺ میں اپنی آواز دھیمی رکھنے کا حکم دیا ہے، کو بھی مدِنظر نہیں رکھا اور جیسےپاکستان اور پاکستانیوں کا تشخص دنیا بھر میں مجروح کیا اُس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
اس شرمناک واقعہ کی جتنی بھی مذمت کی جائے، کم ہے جس نے دنیا بھر میں پاکستانیوں کے سر شرم سے جھکادیئے ہیں۔ واقعہ کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ مسجد نبویؐ کے امام خطبے کے دوران مذکورہ بالا آیت کا ترجمہ کرتے ہوئے روپڑے۔
اس واقعہ سے سعودی حکمران بھی شدید نالاں ہیں کیونکہ شہباز شریف اور ان کے وفد کے ارکان ان کی دعوت پر تشریف لے گئے تھے اور سعودی شاہی خاندان کے خصوصی مہمان تھے۔ مصدقہ اطلاعات کے مطابق یہ ہنگامہ منظم منصوبہ بندی کا نتیجہ تھا۔
سابق وزیر داخلہ شیخ رشید ببانگ دہل ایک پریس کانفرنس میں اس کی پیش گوئی کرچکے تھے جبکہ منصوبے کی تکمیل کیلئے عمران خان کی ہدایت پر پی ٹی آئی کے کچھ رہنما جن میں عمران خان کے سابق مشیر جہانگیر عرف چیکو اور انیل مسرت شامل ہیں،کچھ ساتھیوں کے ہمراہ دو روز قبل برطانیہ سے خصوصی طور پر مدینہ پہنچے اور منصوبے کی کامیابی کو عمران خان کی کامیابی قرار دیا۔ برطانوی پاسپورٹ کے حامل ان افراد کو سعودی حکام نے رات کی تاریکی میں برطانیہ ڈی پورٹ کردیا اور اب یہ افراد زندگی بھر سعودی عرب کا سفر نہیں کرسکیں گے جبکہ سانحہ میں ملوث کچھ پاکستانیوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے جن میں ایک خاتون بھی شامل ہیں۔
واقعہ میں مبینہ طور پر ملوث شیخ رشید کے بھتیجے پی ٹی آئی کے ممبر قومی اسمبلی شیخ راشد جنہوں نے مدینے سے جاری اپنی ویڈیو میں مذکورہ واقعہ کو عمران خان کی کامیابی قرار دیا تھا، کو پاکستان پہنچنے پر گرفتار کرلیا گیا ہے جبکہ شیخ رشید سمیت واقعہ میں ملوث پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا ہے اور عوامی غم و غصے کے باعث مقدمے میں نامزد کچھ افراد کو گرفتار بھی کیا جاسکتا ہے۔
گزشتہ دنوں میرے کالم کے ایک قاری نے مجھے سعودی عرب سے ایک ویڈیو ارسال کی جس میں یہ دیکھ کر شدید صدمہ پہنچا کہ غار حرا کے دہانے پر ایک بڑے پتھر پر کسی یوتھیے نے ’’پی ٹی آئی زندہ باد‘‘ اور ’’گو نواز گو‘‘ کا سیاسی نعرہ تحریر کررکھا تھا۔ افسوس کہ یہ سب کچھ اس پارٹی کے کارکنان کررہے ہیں جس کے سربراہ عمران خان اپنے دورِ اقتدار میں ریاستِ مدینہ کا راگ الاپتے رہے اور لوگوں کو بے وقوف بناتے رہے مگر آج انہی کے پیروکار ریاستِ مدینہ کی مقدس سرزمین کو سیاسی نعرے بازی کا مرکز بناکر پاکستان کی ڈگر پر لے جارہے ہیں۔
خانہ کعبہ اور مسجد نبویؐ دنیا کے وہ مقدس ترین مقامات ہیں جنہیں سیاست کیلئے استعمال نہیں کرنا چاہئے۔ سیاست کیلئے آپ کے پاس پوری دنیا موجود ہے لیکن دنیا کے مقدس ترین مقام مسجد نبویؐ کو اپنی سیاست کیلئے استعمال کرنا قابلِ مذمت اور ناقابلِ قبول عمل ہے کیونکہ مدینہ منورہ کوئی عام شہر نہیں بلکہ اِسے دیار نبیؐ ہونے کا اعزاز حاصل ہے اور ایسی مقدس سرزمین کی حرمت کو پامال کرنا اس قدر سنگین جرم ہے کہ اس کی سنگینی کو الفاظ میں بیان کیا جانا ممکن نہیں۔ مسجد نبویؐ کی حرمت کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب عثمانیوں کے دور میں مسجد نبویؐ کی تعمیر اور توسیع کا کام ہورہا تھا تو سنگ مرمر کے پتھروں کو مسجد نبویؐ کے احاطے سے کافی دور لے جاکر کاٹا جاتا تھا تاکہ شور کی آواز روضہ رسولؐ تک نہ پہنچ سکے۔
ہم اپنے مخالفین کے بغض میں اس حد تک آگے چلے گئے کہ مقدس مقامات کی حرمت بھی بھلا بیٹھے ہیں۔ اختلافات کا اظہار بہتر طریقے سے بھی کیا جاسکتا ہے اور ہم اپنی نفرت اور ناپسندیدگی کا اظہار وقت آنے پر ووٹ ڈال کر کرسکتے ہیں۔افسوس کہ ساڑھے تین سال تک ریاست مدینہ کا راگ الاپنے والوں نے آج مدینہ کی مقدس سرزمین پر حملہ کرکے مسجد نبویؐ کی توہین کی۔ یہ حرکت وہی شخص کرسکتا ہے جس کا دل خوف خدا سے عاری ہو اور اسلام دشمن ہو۔ ایسے شخص کا اسلام تو کیا انسانیت سے بھی دور کا تعلق نہیں اور جن ملعونوں نے یہ حرکت کی، ان پر اللہ اور رسولﷺ کی پھٹکار برستی رہے گی۔ افسوس کہ پی ٹی آئی قیادت کی طرف سے ابھی تک اس واقعہ پر پشیمانی کا کوئی اظہار سامنے نہیں آیا۔
اللہ کے گھروں کی بے حرمتی کسی مسلمان کو زیب نہیں دیتی اور یہ تو پھر ہمارے پیارے نبیﷺ کا روضہ مبارک ہے جہاں صرف اپنے گناہوں پر ندامت کے آنسو بہائے جاسکتے ہیں لیکن نفرت کی آگ میں جل کر کچھ بدبخت، مسجد نبویؐ کا تقدس اور احترام بھی بھول بیٹھے اور اپنی آخرت برباد کرلی۔ اللہ تعالیٰ کا نظام عدل بھی کیا خوب ہے، وہ جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت و رسوائی سے دوچار کردے۔ وہ شرپسند جو مخالفین کو ذلیل و رسوا کرنے گئے تھے، ذلت و رسوائی ان کا مقدر ٹھہری مگر اللہ کے گھر بلائے جانے والے افراد سرخرو ہوکر وطن واپس لوٹے۔جن لوگوں سے یہ گناہ سرزد ہوا ہے، اُنہیں چاہئے کہ وہ ڈھیٹ بن کر اپنی مذموم حرکات کا دفاع کرنے کے بجائے اللہ سے معافی کے طلبگار ہوں اور ریاستِ مدینہ کے دعویدار پہلے احترامِ مدینہ سیکھیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔