26 مئی ، 2022
پاکستان میں کرسی کی جنگ کوئی نئی چیز نہیں ہے، اِس کی تاریخ مملکت کے وجود سے بھی طویل ہے لیکن ان دنوں حبِ جاہ کے سینے میں جو آگ لگی ہے وہ شاید آتشِ اولیٰ کو بھی مات دینے جا رہی ہے۔ آزادی مارچ میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا ادراک جنونی بیانات کی تپش سے لگایا جا سکتا ہے۔ ’’25لاکھ‘‘ کے آزادی مارچ کو پیہم ’’جہاد‘‘ یا ’’حق و باطل‘‘ کی مقدس جنگ قرار دیتے ہوئے اصرار کیا جا رہا ہے کہ جو اس سے ٹکرائے گا مارا جائے گا، جو ہمارے آزادی مارچ کو روکنے کا سوچ رہے ہیں وہ درحقیقت اپنی قبر کھود رہے ہیں۔ یہ نیوٹرلز کا بھی امتحان ہے، یہ جوڈیشری، بیوروکریسی اور پولیس کا بھی امتحان ہے، ہم ان سب کو دیکھ رہے ہیں۔
یوں محسوس ہو رہا ہے کہ اِس وقت ہمارا پیارا صوبہ کے پی پاکستان سے الگ تھلگ کوئی نئی مملکت ہے جہاں آزادی کے تمام تر متوالوں نے کئی دنوں سے خیمے گاڑ رکھے تھے اور آج جہادی لشکر کی صورت کسی باطل مملکت پر حملہ آور ہونے کیلئے علمِ انصاف و بغاوت اٹھائے مارچ کرتے اور دھول اڑاتے پہنچ رہے ہیں، یہاں سے ایک شہد نوش جوشیلا کمانڈر دعوتِ مبازرت دے رہا ہے۔ اِن حالات میں جہادی نعرہ حق بلند کرنے والوں کے وکیل صاحب جب جوڈیشری کا دستِ تعاون لینے پہنچتے ہیں کہ حکومت کو اِس امر سے باز رکھا جائے کہ وہ ہمارے آزادی مارچ میں کسی نوع کا رخنہ ڈال سکے تو جواباً پوچھا جاتا ہے کہ کیا آپ اِس نوع کا بیانِ حلفی عدالت میں جمع کروا سکتے ہیں کہ مارچ کے شرکاء قانون کو ہاتھ میں نہیں لیں گے اور اسلام آباد پہنچنے کے بعد متعین مقام سے آگے بڑھنے کی کوشش نہیں کریں گے؟ جواب ملتا ہے کہ ہم اس نوع کی یقین دہانی نہیں کروا سکتے، اگر آپ اس نوع کا وعدہ نہیں کر سکتے تو پھر پاکستان کے دارالحکومت کو جہادی دستوں کے رحم و کرم پر کیسے چھوڑا جا سکتا ہے جبکہ یہاں دنیا بھر کے سفارتخانے موجود ہیں، بشمول عوام ان سب کے تحفظ کی ریاست ذمہ دار ہے۔
دوسری طرف امن و امان کی ذمہ دار وزارتِ داخلہ کا کہنا ہے کہ ریاست کی رِٹ پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا، تشدد یا اشتعال انگیزی پر قانون حرکت میں آئے گا، بات گالیوں سے گولیوں تک آ چکی ہے، اِس فتنے کی گمراہی کو بہرصورت روکا جائے گا، دھرنوں سے متعلق سپریم جوڈیشری کے فیصلوں پر عمل کیا جائے گا۔ ماقبل وعدہ خلافی ہو چکی ہے۔ لاہور میں ایک پولیس کانسٹیبل کو بےدردی سے شہید کیا جا چکا ہے۔ قانون کے رکھوالوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنانا کھلی غنڈہ گردی ہے۔
درویش کا سوال یہ ہے کہ کرسی کیلئے اتنی شتابی کاہے کی ہے؟ اس وقت اس مملکتِ پاکستان کی پتلی صورتحال پر کسی کو بھی ترس کیوں نہیں آ رہا؟ کیا آپ نے پاکستان کو سری لنکا بنا کر چھوڑنا ہے؟ ہماری معاشی بدحالی و بربادی پوری دنیا کے سامنے ہے، کوئی دوست ملک بھی آئی ایم ایف کے بغیر ہماری امداد کرنے کو تیار نہیں ہے اور آئی ایم ایف سے قابلِ قبول شرائط پر معاہدہ کرنے کیلئے ہمارے مذاکرات چل رہے ہیں، ایسی حساس صورتحال میں ایسی معرکہ آرائی یا ہنگامہ خیزی کی گنجائش کہاں ہے؟
لوگ پوچھتے ہیں کہ عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں، بجائے ان کے دکھوں کا ادراک و مداوا کرنے کے طاقتور کرسی کیلئے پاگل کیوں ہوئے جا رہے ہیں؟ درویش جواب دیتا ہے کہ بجائے سب کو رگیدنے کے اصل شرارتی ذہنیت کو پہچانیں، حقیقی آزادی کے کاروان کا ایجنڈا سمجھنے کی کوشش کریں، وہ یہ کہتے ہیں کہ ملک امریکی غلامی کے نرغے میں آ چکا ہے، ہم نے اسے آزادی دلوانی ہے، اس کا بہترین راستہ کیا یہ نہیں تھا کہ جوڈیشل کمیشن تشکیل دلواتے ہوئے ایسی کسی نام نہاد مبینہ شازش کا کچا چٹھا سامنے لایا جاتا، سچائی تو یہ ہے کہ یہ ساری ڈرامے بازی ہے جسے خود گھڑنے والے بھی دن میں تین مرتبہ پینترے بدلتے ہوئے واضح کرتے رہتے ہیں۔ اصل ابال اس عدم اعتماد پر ہے جو قومی اسمبلی کے ذریعے آئینی و قانونی تقاضوں کی مطابقت میں ہوا ہے۔ آئین اس حوالے سے کیا رہنمائی کرتا ہے؟ یہ کہ منتخب اسمبلی کو اپنی مدت پوری کرنی چاہئے ماسوا یہ کہ منتخب وزیراعظم اسے توڑ دے۔ صرف دو ماہ قبل جب اس نوع کی بحث چل رہی تھی اور آپ کو اسے تحلیل کرنے کا پورا حق حاصل تھا، تب آپ نے اپنی یہ اتھارٹی کیوں استعمال نہ کی؟ جب عدم اعتماد کی قرار داد آ گئی اور آپ کا یہ حق ختم ہو گیا تو آپ نے کھلی آئین شکنی کرنے کی چال چلی جسے سپریم جوڈیشری نے ناکام بنا دیا۔
جب سب کچھ آئین کے مطابق ہوا ہے تو پھر آپ ہی صبر فرمائیں، نیا الیکشن تو بہرصورت ہونا ہے، آپ بجائے خونی مارچ اور دھمکیوں کے عوام کو اپنا ہمنوا بنانے کیلئے جمہوری و سیاسی جدوجہد کریں۔
بلاشبہ پُرامن احتجاج آپ کا جمہوری حق ہے اور نومنتخب اتحادی حکومت کا فرض بنتا ہے کہ وہ آپ کے اس حق کا احترام کرے مگر آپ اور آپ کے فین جس نوع کے نعرے لگاتے ہوئے جو دھمکیاں دے رہے ہیں ان کا کیا جواز ہے؟ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ کسی عوامی دکھ کیلئے نہیں بلکہ اپنی ہوسِ کرسی کیلئے جل بھن رہے ہیں، اسی جلن نے ماقبل ہندوستان و پاکستان کے ٹکڑے کروائے، اب یہ کسی صورت ممکن نہیں ہے کہ آپ کو کے پی کا وزیراعظم مان لیا جائے۔ لوگ ابھی تک 2014والے دھرنے کی تباہ کاریاں نہیں بھولے ہیں جب پارلیمنٹ سے لے کر وزیراعظم ہائوس اور پی ٹی وی کے علاوہ جیو جیسے ابلاغی اداروں پر حملے کیے تھے، آپ کے چاہنے والوں کو بھی سوچنا چاہئے کہ یہ زندگی و موت یا حق و باطل کی جنگ نہیں ہے ،یہ زیادہ سے زیادہ اقتدار یا کرسی کے حصول کی جدوجہد ہے، آپ لوگ یہ ضرور کریں مگر آئین و قانون اور جمہوریت کے مسلمہ تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے پُرامن و جمہوری اسلوب میں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔