Time 29 مئی ، 2022
سائنس و ٹیکنالوجی

سورج کی روشنی سے فضا میں کئی ماہ تک پرواز کی صلاحیت رکھنے والا طیارہ

اس طیارے کو 2016 میں تیار کیا گیا تھا / فوٹو بشکریہ اسکائی ویلر ایرو
اس طیارے کو 2016 میں تیار کیا گیا تھا / فوٹو بشکریہ اسکائی ویلر ایرو

2016 میں ایک عجیب ڈیزائن کا طیارہ سامنے آیا تھا جس پر 17 ہزار سے زیادہ سولر پینلز لگے ہوئے تھے ، جس کے پروں کی لمبائی تو بوئنگ 747 جتنی تھی مگر وزن ایک ایس یو وی کے قریب تھا ۔

اس طیارے نے زمین کے گرد چکر ایندھن کی ایک بوند استعمال کیے بغیر لگایا تھا۔

اسے سولر امپلس 2 کا نام دیا گیا جو سوئس شہریوں برٹرانڈ پیکارڈ اور برٹرانڈ بورس برگ نے تیار کیا تھا ۔

2019 میں اس طیارے کو ایک کمپنی اسکائی ویلر ایرو نے خرید لیا تھا تاکہ اسے کمرشل سیٹلائیٹ کے طور پر استعمال کیا جاسکے۔

اسکائی ویلر کے سی ای او رابرٹ ملر کے مطابق یہ طیارہ غیرمعینہ مدت تک فضا میں رہ سکتا ہے ، یعنی 30، 60، 90 دن یا ایک سال تک ، اور اس طرح کے طیارے وہ سب کچھ کرسکتے ہیں جو ایک سیٹلائیٹ کرتا ہے ، یعنی ٹیلی کمیونیکشن اور ارتھ امیجنگ وغیرہ۔

اس طرح کی سروسز کے لیے کسی طیارے کو استعمال کرنا زیادہ سستا ثابت ہوگا کیونکہ سیٹلائیٹس کی تیاری کی لاگت کافی زیادہ ہے اور انہیں ایک راکٹ کے ذریعے زمین کے مدار پر بھیجا جاتا ہے ۔

سیٹلائیٹس کی زندگی بھی محدود ہوتی ہے کیونکہ وقت کے ساتھ وہ خلائی کچرے کا حصہ بن جاتے ہیں۔

سولر امپلس 2 کو خریدنے کے بعد اسکائی ویلر نے کئی ماہ لگا کر اس کے ڈیزائن کو بہتر کیا اور پھر نومبر 2020 میں پہلی بار اڑایا۔

اب تک متعدد بار یہ آزمائشی طور پر پرواز کرچکا ہے / فوٹو بشکریہ اسکائی ویلر ایرو
اب تک متعدد بار یہ آزمائشی طور پر پرواز کرچکا ہے / فوٹو بشکریہ اسکائی ویلر ایرو

اس کے بعد سے اب تک اس کی 12 آزمائشی پروازیں جنوب مشرقی اسپین میں مکمل ہوچکی ہیں ۔

رابرٹ ملر نے بتایا کہ ہم اسے ایک ڈرون میں تبدیل کرنے کے عمل سے گزر رہے ہیں، ابھی تو اس کے محفوظ ہونے کی آزمائش کی جارہی تھی مگر اب ہم بغیر انسانوں کی پرواز کی صلاحیت کی جانچ پڑتال کرنے والے ہیں۔

ابھی تک اس طیارے کے ٹیک آف اور لینڈنگ کا کام پائلٹ ہی کرتے ہیں مگر رابرٹ ملر کا کہنا تھا کہ اگلے مرحلے میں ایسے سسٹم استعمال کیے جائیں گے جو یہ عمل خود کار بنادیں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس کے بعد ہم طیارے میں پائلٹ کو سوار نہیں کریں گے ، ہم نے دوسرے طیارے کی تیاری شروع کردی ہے جس میں کوئی کاک پٹ نہیں ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ پائلٹ اور کاک پٹ کے نہ ہونے سے آلات کے لیے زیادہ جگہ مل سکے گی جو کہ ہفتوں یا مہینوں تک طیارے کی پرواز کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ طیارہ 2023 تک تیار ہوسکتا ہے اور انہیں یقین ہے کہ ایسے ہزاروں طیاروں کی ضرورت دنیا بھر میں محسوس ہوگی ، کیونکہ مختلف کمپنیاں جیسے فیس بک اور گوگل کی جانب سے اس طرح کے سیٹلائیٹس کی آزمائش ماضی میں کی جاتی رہی مگر کمرشل پراڈکٹ تیار نہیں ہوسکی۔

اس منصوبے نے امریکی حکومت کو بھی اپنی طرف متوجہ کیا ہے اور امریکی بحریہ 50 لاکھ ڈالرز اس کمپنی میں لگا کر طیارے کی میری ٹائم پٹرول کی صلاحیت کی جانچ پڑتال کررہی ہے، جس کے لیے ابھی ڈرونز کی مدد لی جاتی ہے مگر وہ 30 گھنٹے سے زیادہ پرواز نہیں کرسکتے۔

مگر رابرٹ ملر کے مطابق یہ طیارہ بتدریج حکومتی منصوبوں تک محدود رہنے کی بجائے زیادہ کمرشل ہوسکے گا کیونکہ یہ ماحول کے لیے زیادہ مفید ہے ، جبکہ قدرتی وسائل کی مانٹیرنگ کرنا آسان ہوگا۔

اسی طرح ٹیلی کمیونیکشنز اس طیارے کے استعمال کی بنیادی وجہ بن سکتی ہے ، کیونکہ اس کی مدد سے ان جگہوں پر بھی انٹرنیٹ اور سیلولر سروسز کی فراہمی ہوگی جہاں سیٹلائیٹس یا روایتی انفراسٹرکچر زیادہ کارآمد نہیں۔

مزید خبریں :