01 جون ، 2022
وزیراعظم شہباز شریف نے گزشتہ دنوں قوم سے اپنے پہلے نشری خطاب میں ملک کو درپیش مسائل کی نشاندہی کی اور وہ اسباب بیان کئے جس کے نتیجے میں حکومت کو پیٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں بادل نخواستہ 30روپے فی لیٹر کا اضافہ کرنا پڑا۔ ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی حکومت نے جانے سے قبل پیٹرولیم مصنوعات پر جس طرح سبسڈی دی گئی، اگر یہ سبسڈی مزید جاری رہتی تو معیشت دیوالیہ ہوسکتی تھی۔
اس موقع پر انہوں نے غریب عوام کو ریلیف دینے کیلئے 28 ارب روپے کے پیکیج کا اعلان بھی کیا جس کے تحت 14 ملین خاندانوں کو 2 ہزار روپے ماہانہ کی اضافی امداد ملے گی جس سے غریب عوام پر مہنگائی کا بوجھ کم ہوگا جبکہ بینظیر انکم سپورٹ کے رجسٹرڈ افراد کو ملنے والے ماہانہ معاوضے کو بھی دگنا کرنے کا اعلان کیا گیا۔ اپنے خطاب میں وزیراعظم شہباز شریف بہت پراعتماد اسٹیٹس مین نظر آئے جس سے یہ تاثر ابھرا کہ وہ مشکل حالات سے نمٹنے اور خستہ حال معیشت کو درست سمت میں گامزن کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
آئی ایم ایف کے دبائو کے نتیجے میں پیٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی کے خاتمے سے معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوئے اور روپے کی قدر اور اسٹاک مارکیٹ میں بہتری دیکھنے میں آئی تاہم حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ اس وقت بھی پیٹرولیم مصنوعات پر 26 روپے فی لیٹر سبسڈی کی مد میں دے رہی ہے۔ آئی ایم ایف کی پیٹرول پر سبسڈی ختم کرنے کے مطالبے پر عملدرآمد کے بعد اب اُمید کی جارہی ہے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف سے 3 ارب ڈالر اور ورلڈ بینک سے ایک ارب ڈالر کی امداد ملے گی جبکہ دیگر عالمی مالیاتی ادارے بھی پاکستان کی مدد کریں گے۔
اس کے علاوہ وہ دوست ممالک جن کے اربوں ڈالر کے ڈپازٹ ہمارے پاس ہیں، ان میں بھی توسیع کی جائے گی جس سے آنے والے دنوں میں معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔وزیراعظم شہباز شریف اقتدار سنبھالنے کے بعد مشکل فیصلے اور ایسے اقدامات کررہے ہیں جس سے امپورٹ بل اور کرنٹ اکائونٹ خسارے میں کمی لائی جاسکے۔ پرتعیش اشیاء کی امپورٹ پر کچھ عرصے کیلئے پابندی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ یہ لمحہ فکریہ ہے کہ آج ہمارا امپورٹ بل 75 ارب ڈالر جبکہ ایکسپورٹ صرف 30 ارب ڈالر پر کھڑی ہے اور اس طرح ہمیں 45 ارب ڈالر کے تجارتی خسارے کا سامنا ہے۔
یہ دیکھ کر دل کڑھتا ہے کہ ہماری مارکیٹیں امپورٹڈ آئس کریم، پھول، چاکلیٹس اور پنیر جیسی اشیاء سے بھری پڑی ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک سپر مارکیٹ جانے کا اتفاق ہوا تو فرانس کے منرل واٹر Perrier، جو دنیا کا سب سے مہنگا ترین پانی تصور کیا جاتا ہے، کو دیکھ کر حیرانی اور افسوس ہوا۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ پرتعیش اشیاء کی امپورٹ پر پابندی سے سالانہ 4سے 6 ارب ڈالر امپورٹ بل میں کمی آئے گی۔
حکومت کو آنے والے کڑے وقت میں سبسڈی کے خاتمے کے ساتھ پیٹرولیم مصنوعات کی امپورٹ میں بھی کمی لانا ہوگی۔ پاکستان اس وقت 20 ارب ڈالر سے زائد کی پیٹرولیم مصنوعات امپورٹ کررہا ہے اور اگر روس یوکرین تنازع کے باعث انٹرنیشنل مارکیٹ میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو امپورٹ بل میں اضافہ ناگزیر ہے۔ ہم پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کا تو رونا روتے رہتے ہیں مگر کبھی ایسی حکمت عملی اختیار نہیں کی جس سے پیٹرول کے استعمال میں کمی ہو۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اس طرح کے سخت اقدامات کرے جس سے پیٹرول کے امپورٹ بل میں کمی لائی جاسکے۔
اس سلسلے میں ہفتے میں دو چھٹیاں ایک اچھا اقدام ہے۔ اسی طرح پیٹرول کی راشننگ کیلئے بھی کچھ حکمت عملی اپنانا ہوگی اور ایک دن Even نمبر اور ایک دن Odd نمبر کی گاڑیوں کو سڑک پر آنے کی اجازت دینا ایک اچھی تجویز ہے جو فلپائن، یونان اور دنیا کے کئی ممالک میں نافذ کی جاچکی ہے جبکہ دنیا کے کچھ ممالک میں پیٹرول کے متبادل فیول ایتھنول پر بھی گاڑیوں کو منتقل کیا جارہا ہے۔
پاکستان 5 ارب ڈالر سالانہ سے زائد کی کھانے پینے کی اشیاء امپورٹ کررہا ہے جس میں خوردنی تیل سرفہرست ہے جسکی سالانہ امپورٹ 4 ارب ڈالر سے تجاوز کرگئی ہے اور اس طرح پاکستان خوردنی تیل امپورٹ کرنے والا دنیا کا تیسرا بڑا ملک بن چکا ہے۔ اِسی طرح ہم سالانہ 600 ملین ڈالر چائے کی امپورٹ پر خرچ کرکے چائے کا شوق پورا کررہا ہے۔ ہم خوردنی تیل اور چائے کی قیمتوں میں اضافے کا رونا روتے ہیں مگر ہم نے کبھی کوئی ایسی حکمت عملی اختیار نہیں کی کہ خوردنی تیل اور چائے کی امپورٹ میں کمی لائیں۔
ایسے میں جب ملک شدید معاشی مشکلات کا شکار ہے، حکومت کو چاہئے کہ وہ سرکاری اور پرائیویٹ اداروں میں چائے پر پابندی یا استعمال میں کمی جیسے اقدامات کرے جبکہ گھروں میں تیل اور گھی کے استعمال میں کمی لائی جائے اور خوردنی تیل کی امپورٹ میں کمی لانے کیلئے سویا بین کی کاشت میں اضافہ کیا جائے۔
وزیراعظم شہباز شریف غریب عوام کیلئے درد مند دل رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا فیصلہ دل پر پتھر رکھ کر کیا کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ غریب عوام پر کوئی بوجھ ڈالا جائے۔ ہمیں امپورٹ بل میں کمی لانے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنا ہوں گے اور اس سلسلے میں ہر پاکستانی کو پرتعیش اشیاء کا استعمال ترک کرکے قربانی دینا ہوگی اور امپورٹڈ اشیاء پر انحصار کم کرنا ہوگا۔ اگر ہم نے اپنے حصے کی قربانی نہ دی، چادر سے زیادہ پیر پھیلاتے رہے اور مہنگائی کا ذمہ دار حکومت کو ٹھہراتے رہے توپھر ہمیں مستقبل میں سری لنکا جیسی صورتحال کا سامنا کرنے کیلئے تیار رہنا چاہئے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔