Time 15 جون ، 2022
بلاگ

میں شاید کب کی مر جاتی !!

فوٹو: اقراء جاوید
فوٹو: اقراء جاوید

میرا پہلی مرتبہ تھر جانے کا اتفاق ہوا تو تھر  والوں کی زندگیوں اور ان کی مشکلات کا بڑی باریک بینی اور بغور مشاہدہ کیا۔یہاں کے لوگ خصوصاً خواتین بڑی ہی ملنسار اور محبت کرنے والا وسیع دل رکھتی ہیں۔ یہاں کے مرد سے لے کر خواتین تک سب سخت جان، جفا کش اور موسم کی تلخیاں برداشت کیے محنت مزدوری کررہے ہوتے ہیں۔

تھر کا صحرا لاکھ سوکھا سہی، پینے کیلئے صاف پانی میسر نہیں، بجلی کی سہولت نہیں،اندھیرے میں کٹتے دن رات سہی، صحت عامہ اور خوراک کے لاکھ مسائل جوں کے توں، سفری سہولیات دستیاب نہیں، مور اور اونٹوں کے صحرا میں بکھرے ڈھانچے، معصوم جگر کے گوشوں کا تڑپنا سہی لیکن یہاں کے لوگ اطمینان اور سکون سے بھرپور اور زبان پر کسی چیز کا گلہ شکوہ لائے بغیر زندگی بسر کر رہے ہیں۔

شاید اسی صورتحال کو  دیکھ کر سندھ سے تعلق رکھنے والے تھری شاعر حلیم باغی نے لکھا ہے 'میرے تھر کا حال جو پوچھو گے تو رو پڑو گے ،رو پڑو گے۔‘

تھر کے سوکھے صحرا قحط سالی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ پانی کے بغیر کوئی شے زندہ نہیں رہ سکتی، وہاں جا کر اندازہ ہوا کہ یہاں کے لوگوں کا بھی سب سے بڑا اور بنیادی مسئلہ پانی ہی ہے۔ 

سر پر گھڑا اٹھائے میلوں پیدل سفر کر کے کنویں سے پانی نکالنا میرے بس میں نہیں تھا

میں تھر کے گاؤں کے ایک چنرے میں داخل ہوئی اور  وہاں ایک بزرگ خاتون سے ہم کلام ہوئی اور ان سے پینے کے صاف پانی کے حوالے سے دریافت کیا تو، آہ بھرتے ہوئے انہوں نے جواب دیا' بیٹا میں شاید کب کی مرجاتی، سر  پر گھڑا اٹھائے میلوں پیدل سفر کر کے کنویں سے پانی نکالنا میرے بس میں نہیں تھا،اس ڈھلتی عمر میں اگر مزید پانی کا بوجھ اٹھاتی تو شاید آج زندہ نہ ہوتی لیکن ایک این جی او کی مدد کی بدولت مجھے ایک نئی زندگی مل گئی ہے۔اب میلوں پیدل کی مسافت طے کیے بغیر میٹھا اور صاف پانی مل جاتا ہے۔ میں اب بہت خوش ہوں۔‘

یہ تو ایک تھری عورت کے منہ سے نکلے الفاظ تھے، شاید بلکہ یقیناً ہر تھر ی عورت کے یہی الفاظ ہوتے کیونکہ این جی او نے پینے کے صاف پانی کے ہینڈ پمپز لگوا کر ان کی زندگی کا سب سے بڑا اور کٹھن مسئلہ حل کردیا ہے اور ان کی زندگی آسان بنادی ہے۔

میلوں کا سفر پیدل طے کرنے کے بعد 250 سے 500 فٹ گہرائی میں کنواں انہیں منہ چڑھاتا ہے

 پہلے ٹی وی اور اخبار کی ہر سرخی میں تھر اور مِٹھی کا نام اور ان کی آئے روز ایک نئی دکھ بھری روداد سنتی تو خود سے ہی سوال کرتی کہ کیا واقعی آج کے دور میں بھی ایسا ہوتا ہے؟ 

 اس جدید ٹیکنالوجی اور گلوبل ولیج کہلائی جانے والی دنیا میں اب بھی ایسا ہوتا ہے؟ لیکن خود تھر جاکر دیکھنے کے بعد دل واقعی خون کے آنسو روتا ہے۔ اس شہر کی دنیا سے تو وہ ویران اور بنجر دنیا بالکل ہی مختلف ہے، وہاں کے لوگوں کو تو اس بات کا علم ہی نہیں کہ زندگی کہتے کسے ہیں۔

وہاں کے لوگ کنویں سے گدھوں اور اونٹوں کی مدد سے پانی نکالتے ہیں۔ پانی کیلئے ایک گھڑا سر  پر اور دوسرا بغل میں دبائے دوبارہ میلوں کا سفر پیدل طے کرنے کے بعد 250 سے 500 فٹ گہرائی میں کنواں انہیں منہ چڑھاتا ہے۔ 

وہاں ایک اور چیز کا مشاہدہ کیا کہ تھر میں میٹھا اور کھارا دونوں قسم کا پانی ہے

وہاں ایک اور چیز کا مشاہدہ کیا کہ تھر میں میٹھا اور کھارا دونوں قسم کا پانی ہے لیکن اس کیلئے پیدل دور دراز سفر کرنا پڑتا ہے جو کہ تھریوں کیلئے بہت محنت طلب کام ہے۔

ان ہی مشکل حالات کو دیکھتے ہوئے تھر میں پیاس سے جاں بہ لب انسانوں کیلئے این جی او نے پینے کے صاف پانی کی فراہمی کیلئے منصوبہ شروع کیا ہے جس کے تحت تھریوں کیلئے ان کے چنروں کے آس پاس میٹھے اور صاف پانی کے ہینڈ پمپز لگوا دیے ہیں تاکہ یہاں کے لوگوں کو  پانی کیلئے میلوں کی مسافت پیدل طے نہ کرنی پڑے۔ این جی او کی اس سنجیدہ کوششوں سے سیکڑوں افراد مستفید ہو رہے ہیں۔

چاہیے تو حکومت کو  تھا کہ تھریوں کی بنیادی سہولتوں کا خیال رکھتی ان کیلئے آسانیاں پیدا کرتی لیکن اب یہ کام این جی اوز اور مختلف تنظیمیں سر انجام دے رہی ہیں۔ 

حکومت وقت سے بس اتنی سی التجاء ہے کہ خدارا اپنے قیمتی محلوں سے نکل کر تھر کا بھی دورہ کرلیا کریں ،ان کے ساتھ بھی تھوڑا وقت گزاریں گے تو ان کی ضرورتوں کا احساس بھی ہوگا ورنہ سوشل میڈیا کا سہارا لے کر دو لفظ ہمدردی کے بولنا کوئی بڑا کارنامہ نہیں۔ اب وقت ہے کہ باتوں اور دعوؤں کو عملی جامہ پہنایا جائے۔

*مصنفہ  اقراء جاوید  نےجامعہ کراچی سے ابلاغ عامہ میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی ہے ، یہ سماجی موضوعات پر لکھنے کا ذوق رکھتی اور خصوصاً تاریخ کے حوالے سے جاننے میں تجسس رکھتی ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔