عامر لیاقت، ایک عہد کا اختتام

یہ اُس وقت کی بات ہے جب جیو ٹی وی کا ’’عالم آن لائن‘‘ پاکستان میں سب سے زیادہ دیکھا جانے والا مذہبی پروگرام تھا، جس کے میزبان عامر لیاقت عوام میں مقبولیت کی انتہا کو چھورہے تھے جبکہ پاکستان کے بڑے بڑے علمااس پروگرام میں شرکت کرتے تھے۔

 ایک دن جب میں آفس سے گھر پہنچا تو میری والدہ محترمہ ’’عالم آن لائن‘‘ دیکھ رہی تھیں اور اُن کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ میرے دریافت کرنے پر والدہ نے بتایا کہ ’’وہ اس پروگرام کو باقاعدگی سے دیکھتی ہیں اور اس لڑکے کا خوبصورت اندازِ بیاں میرے دل کو موہ لیتا ہے، میری خواہش ہے کہ ایک دن اس سے ملاقات کروں۔‘‘

عامر لیاقت سے میرے دیرینہ دوستانہ تعلقات تھے۔ ایک ملاقات میں جب میں نے اُنہیں اپنی والدہ کی اُن سے عقیدت اور خواہش کا ذکر کیا تو عامر لیاقت نے کہا کہ وہ ایک دن ضرور والدہ سے ملنے تشریف لائیں گے۔ اس طرح وہ ایک دن عید کے موقع پر اپنی اہلیہ بشریٰ کے ہمراہ گھر تشریف لائے۔ عامر لیاقت کو دیکھ کر والدہ محترمہ بہت خوش ہوئیں ، اُنہیں گلے لگاکر ماتھا چوما، ڈھیر ساری دعائیں دیں اور عید کی مناسبت سے عامر لیاقت اور بشریٰ بھابھی کو عیدی دی۔ والدہ محترمہ جب تک زندہ رہیں، وہ ہر نماز میں عامر لیاقت کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھتیں جبکہ عامر لیاقت بھی میری والدہ سے ملاقات کو کبھی نہیں بھولے۔ وہ اکثر رمضان المبارک کے خصوصی پروگراموں میں مجھے مدعو کرتے اور والدہ محترمہ سے ملاقات اور عیدی کا ذکر کرتے تھے۔

ربیع الاول کے موقع پر عامر لیاقت مذہبی اجتماع منعقد کرتے تھے ،جس میں ہزاروں عقیدت مند شریک ہوتے۔ اجتماع کی خاص بات عامر لیاقت کی وہ روح پرور دعا ہوتی تھی جس میں محفل میں شریک ہر شخص پر رقت طاری ہوجاتی تھی۔ اپنے عروج کے زمانے میں عامر لیاقت رکن قومی اسمبلی منتخب ہوکر مشرف کابینہ کے سب سے کم عمر وزیر مملکت برائے مذہبی امور مقرر ہوئے۔ یہ وہ دور تھا جب عامر لیاقت ایک عہد، ایک دور، ایک برانڈ کا نام تھا ۔ وقت گزرتا گیا، میری والدہ محترمہ، عامر لیاقت کو دعائیں دیتے دیتے اس دنیا سے رخصت ہوگئیں جبکہ عامر لیاقت بھی ترقی کی منازل طے کرتے کرتے دولت اور شہرت کی بھول بھلیوں میں کھوگئے۔

کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جب کسی کو شہرت اور دولت سے نوازتا ہے تو اُسے برقرار رکھنا انسان کیلئے بہت مشکل ہوجاتا ہے، شہرت اور دولت کی چکا چوند اسے بہکانے کے ساتھ حاسدین بھی پیدا کردیتی ہے۔ یہی کچھ عامر لیاقت کے ساتھ ہوا۔ انہوں نے اپنی نجی زندگی میں کچھ ایسی غلطیاں کیں جس کی قیمت اُنہیں موت کی صورت میں ادا کرنا پڑی۔ عامر لیاقت اپنی تیسری اہلیہ کے رویے سے بہت زیادہ دلبرداشتہ تھے جنہوں نے سوشل میڈیا پر اُن کی کردار کشی کی جس سے عامر لیاقت کو شدید صدمہ پہنچا۔

 اس بات کا ذکر انہوں نے مجھ سے بڑے دکھ بھرے لہجے میں کیا تھا۔ اپنی موت سے کچھ روز قبل عامر لیاقت نے مجھے واٹس ایپ پر وائس میسج بھیجا جو آج بھی میرے موبائل میں موجود ہےانہوں نے لکھاکہ ’’اشتیاق بھائی، میرے ساتھ جو کچھ ہوا اور میری ویڈیو جس طرح سوشل میڈیا پر وائرل کی گئی، حکومت کے کسی ادارے نے کوئی ایکشن نہیں لیا جس سے میں بہت زیادہ دلبرداشتہ ہوں اور میں نے پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے، میں مراکش سیٹل ہوکر اپنی بقیہ زندگی گمنامی میں گزارنا چاہتا ہوں، آپ مراکش کے اعزازی قونصل جنرل ہیں، مجھے اس سلسلے میں آپ کی مدد درکار ہے۔‘‘ میں نے کہا کہ ’’آپ اسلام آباد سے کراچی آئیں تو ہم ملاقات کرتے ہیں، مراکش سیٹل ہونے کیلئے آپ کو میرا ہر طرح کا تعاون حاصل ہوگا جہاں میرا گھر بھی ہے، آپ جب تک چاہیں، وہاں قیام کرسکتے ہیں۔‘‘

میں نے فیصلہ کیا تھا کہ عامر لیاقت سے ملاقات کرکے اُنہیں ہر ممکن مدد فراہم کروں گا لیکن افسوس کہ مراکش کے سفر پر جانے سے پہلے ہی وہ موت کے سفر پر رخصت ہوگئے۔ عامر لیاقت کی موت کی خبر مجھے ہالینڈ میں ملی جب میں میک اے وش فاؤنڈیشن انٹرنیشنل کی سالانہ کانفرنس اور بورڈ آف ڈائریکٹرز میٹنگ اٹینڈ کررہا تھا۔ افسوس کہ میں اُن کے جنازے میں شرکت نہ کرسکا جس کا مجھے ہمیشہ ملال رہے گا۔

 پاکستان واپس آکر میں نے بشریٰ بھابھی اور بچوں سے اُن کے گھر جاکر تعزیت اور فاتحہ خوانی کی۔ عامر لیاقت اپنے بیٹے احمد اور بیٹی دعا سے بہت محبت کرتے تھے۔ یہ اُن کی محبت، شفقت اور اچھی تربیت و پرورش کا نتیجہ تھا کہ اُن کے بیٹے نے نہ صرف اپنے باپ کی میت کو غسل دیا بلکہ اُن کی نماز جنازہ بھی خود پڑھائی جو یقیناً قابل تحسین ہے۔ بشریٰ بھابھی سے تعزیت کے موقع پر میں نے فرط جذبات میں احمد کو گلے لگاکر کہا کہ ’’اللہ تعالیٰ ہر والدین کو آپ جیسی اولاد عطا فرمائے۔‘‘

عامر لیاقت ایک عہد، ایک دور اور ایک برانڈ کا نام تھا، وہ اِس قدر خوش قسمت تھا کہ اُس کیلئے خانہ کعبہ اور روضہ رسولﷺ کے دروازے کھولے گئے اور بدقسمت اتنا کہ اُسے اپنی ہی محرم نے دنیا میں برہنہ کردیا۔ عامر لیاقت آج ہم میں نہیں۔ اگر ہم اُن کی نجی زندگی میں پیش آنے والے واقعات کو اُن کی شخصیت سے الگ کرکے دیکھیں توپاکستان ایک اچھے مقرر اور مذہبی اسکالر سے محروم ہوگیا۔ ہم نے اُنہیں دنیا میں تو سکون سے رہنے نہیں دیا اورشاید اب دنیا سے جانے کے بعد بھی اُنہیں سکون نصیب نہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔