وفاق کا نمائندہ یا پارٹی ترجمان؟

صدر مملکت عارف علوی نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم ) کے بعد قومی احتساب بل 2022ء بھی بغیر دستخط کئے یہ کہتے ہوئے پارلیمنٹ کو واپس کر دیا ہے کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے منظور شدہ بل رجعت پسندانہ نوعیت کا ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں خود کو اللّٰہ تعالیٰ کے سامنے جوابدہ سمجھتا ہوں اور اس سے معافی کا طلب گار رہتا ہوں، میرا ضمیر مجھے احتساب ترمیمی بل پر دستخط کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔

صدر علوی کا یہ بیان پڑھتے ہوئے درویش کو اموی دور کی ابتدا کا ایک مباحثہ یاد آگیا، جب وقت کا حکمران یہ کہہ رہا تھا کہ بیت المال اللّٰہ تعالیٰ کی ملکیت یا اس کا مال ہے جبکہ اس کے بالمقابل شخص یہ کہہ رہا تھا کہ نہیں بیت المال تمہارے پاس عوام کی امانت ہے۔

اب بظاہر دیکھا جائے تو باتیں دونوں کی ٹھیک محسوس ہوتی ہیں، زمین و آسمان میں جو کچھ ہے کوئی شک نہیں کہ وہ سب کچھ خدا کی ملکیت ہے کوئی مسلمان اس سے انکار کی جسارت نہیں کرسکتا جبکہ دوسری جانب حضرت ابوذر غفاری ؓ کی بات بھی وزنی و حقیقی تھی کہ سرکاری خزانہ عوام کی ملکیت ہے۔

اب ایشو یہ تھا کہ اگر بیت المال کو عوام کی ملکیت یا امانت منوا لیا جاتا تو اس کے معنی یہ تھے کہ عوام اپنے حکمرانوں سے پائی پائی کا حساب پوچھنے میں حق بجانب تھے بصورت دیگر اگر یہ اللّٰہ تعالیٰ کی ملکیت قرار پاتا تو پھر اس کا تصرف خلیفۃ المسلمین اپنی صوابدید یا من مرضی سے کر سکتا تھا۔

عثمانی خلفا کے محلات کی پیشانیوں پر تحریر کنندہ یہ الفاظ آج بھی پڑھے جا سکتے ہیں یہ عاجز پڑھ کے آیا ہے، السلطان العادل ظل اللّٰہ فی الارض۔ صدر علوی کو بھی یہ سمجھنا چاہئے کہ وہ بحیثیت صدر زمین پر خدا کا سایہ نہیں وہ پارلیمنٹ کا حصہ ہیں اور اپنے ہر کئے پر عوام کو بھی جوابدہ ہیں یہ کہہ کر کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کو جوابدہ ہیں اور اس سے معافی کے طلب گار رہتے ہیں وہ عوام یا میڈیا کی تنقید سے ماورا نہیں ہوسکتے۔

کیا انہیں ادراک نہیں کہ پارلیمانی جمہوریت میں صدر کا عہدہ آئینی و نمائشی ہوتا ہے، اقتدار کا منبع یا سرچشمہ عوام ہیں تو یہ امر و اضح رہے کہ عوام کا براہ راست منتخب ادارہ ہی مقتدر و بالا دست ہے، اس کے سامنے کسی بھی فرد ِواحد کوکسی قسم کی حجت بازی نہیں کرنی چاہئے۔

صدر کا تعلق کسی بھی سیاسی گروہ یا پارٹی سے ہو آئینی طور پر اس کی حیثیت وفاق کے ایک ایسے نمائندے کی ہے جو تمام پارٹیوں، گروہوں، دھڑوں، صوبوں، اکائیوں، مذھبوں، نسلوں ،جنسوں کو ایک نظر سے دیکھے گا، منتخب ہونے کے بعد وہ پارٹی بازی نہیں کرے گا مگر یہ افسوس کہ صدر علوی کےآئینی رول پارٹی بازی کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔

آئین میں صراحت ہے کہ جب کسی بھی منتخب وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد پیش ہو جائے تو اسپیکر سات دن میں اس پر رائے شماری کا پابند ہے اور اس دوران وزیر اعظم کا اسمبلی توڑنے کا استحقاق ختم ہو جاتا ہے۔ کیا صدر علوی سے یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ جب حال ہی میں ہٹائے گئے وزیراعظم نے آئین کی صریحاً خلاف ورزی کرتے ہوئے اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس ان کے پاس بھیجی تو انہوں نے آئین کی کتنی پاسداری کی؟

انہوں نے ایک لمحے کیلئے بھی یہ سوچنا کیوں پسند نہ کیا کہ ڈپٹی اسپیکر ماورائے آئین جا رہا ہے تو میں اس سے کوئی سوال ہی پوچھ لوں؟ مابعد جس چیز کو سپریم کورٹ نے بھی غیر آئینی قرار دیتے ہوئے باقاعدہ فیصلہ جاری فرمایا۔ کیا صدر پاکستان نہیں سمجھتے کہ اس غیر آئینی اقدام پر ان کی باز پرس ہونی چاہئے؟

آج ان کا لیڈر یہ کہہ رہا ہے کہ اس نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس بھیج کر غلطی کی تھی اور یہ حرکت اُس سے فلاں شخص نے سرزد کروائی تھی۔

ہمارا سوال یہ ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جیسی قد آور قومی شخصیت کے خلاف جس وقت ایسا منتقمانہ ریفرنس بھیجا گیا اس وقت صدر مملکت کہاں تھے؟ انہوں نےکیوں، ہر الزام کودرست سمجھتے ہوئے اتنی شتابی دکھائی؟

جس شخص نے یہ غلط ریفرنس، جسے آج وہ خود پورے میڈیا کے سامنے اپنابلنڈر تسلیم کررہے ہیں، بھیجا اس کی نظروں میں صدر مملکت کی جو عزت و توقیر تھی وہ ہم نے سعودی کراؤن پرنس کی تقریب میں بیٹھ کر سپاسنامہ پڑھتے ہوئے اس وقت ملاحظہ کرلی جب آداب محفل کیخلاف پلیٹوں کی کھنک میں اکیلے کھانا کھاتے شخص نے ڈانٹتے ہوئے کہا ’’علوی کھڑے ہو کر پڑھو‘‘۔

کیا کسی صدر مملکت کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ محض اپنی پارٹی کا ترجمان نظر آئے یا ایک خودپسند شخص کا ورکر بنا رہے؟

کیا آپ کو معلوم نہیں ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت اور اس کے چیف ایگزیکٹو کو پہلی مرتبہ تمامتر آئینی تقاضوں کی مطابقت میں ہٹایا گیا ہے اور اس کے بعد سے آپ کا طرز عمل کیا صدر مملکت کےشایان ِشان ہے؟ آپ کے متعلق جو کچھ وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کیا وہ حرف بہ حرف درست نہیں؟


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔