28 جولائی ، 2022
پاکستان کا سیاسی عدم استحکام کسی سے پنہاں نہیں اس پر عدم برداشت اور عدم رواداری کا یہ عالم ہے کہ ہرکوئی دوسرے کو چور، آئین شکن اور ملک دشمن خیال کر رہا ہے، بالخصوص سابق کرکٹر تو اپنے سیاسی مفادات کو اٹھتے بیٹھتے جہادکا نام دے رہے ہیں۔
پاکستان کی مقتدرہ سے نواز شریف کی لڑائی یہ تھی کہ آپ لوگ آئینی حدود میں کیوں نہیں رہتے جبکہ لاڈلےصاحب کا اصراریہ ہے کہ تم لوگ نیوٹرل کیوں بن رہے ہو .....مسئلہ کسی کھلاڑی یا اناڑی کا نہیں ، بائیس کروڑ عوام کے دکھوں کا ہے جو اس وقت کم آمدنی اور کم وسائل کے ساتھ ساتھ مہنگائی و بیروزگاری کی چکی کےدو پاٹوں میں پس رہے ہیں۔ ن لیگ سےعوام بالخصوص پنجاب کے عوام کو بڑی امیدیں تھیں لیکن اس کی قیادت نے اپنی حماقتوں سے عوامی امیدوں کو مایوسیوں میں بدل ڈالا۔ نتیجتاً سیاسی عدم استحکام مزید بڑھ گیا ، وفاق میں ایک ٹانگ پر ان کی جو حکومت کھڑی ہے وہ کسی ایک اتحادی کے ایک معمولی دھکے کی مار ہے ۔ آئی ایم ایف کے قرضوں سے جو خواب دکھائے جا رہے ہیں وہ سب سراب ہیں ۔
بھلے مانسو اگر تمہیں آئی ایم ایف یا کچھ دوستوں سے قرضے مل بھی جائیں تو کون سے وارے نیارے ہو جائیں گے اور کتنی دیر تک؟عوام پر ٹیکسز کی بھرمارسے ان کو نچوڑرہے ہو ،جب ان میں کوئی سکت ہی نہیں رہے گی تو معاشی خوشحالی کہاں سے آن ٹپکے گی ؟ ملک میں اندرونی سرمایہ کاری کہاں سے ہو گی ؟ رہ گئی بیرونی سرمایہ کاری، جب ملک میں سیاسی انتشار مزید بڑھنے جا رہا ہے تو بھول جائو کہ باہر سے کوئی سر پھرا یہاں سرمایہ کاری کیلئے آئے گا ۔
تو پھر اس ملک کی اصل خرابی کیا ہے اور اس سے نکلنے کا راستہ کیا ہے ؟ قدرتی وسائل کے لحاظ سے یہاں کس چیز کی کمی ہے ؟ کیا یہاں کی زمینیں بنجر ہیں یا لوگ اپاہج ہیں ؟ ایسی کوئی بات نہیں ، لوگ جفا کش ہیں، یہاں کی زرخیز زمینیں سونا اگلتی ہیں،چار موسم ہیں۔ کمی ہے توصرف فکری بلوغت و وسعت کی۔ مخصوص مفادات کے پجاریوں نے عوام کےاذہان میں منافرتیں بھر رکھی ہیں ،جس کے تحت ہمیں ہمارے سوا ساری دنیا بری لگتی ہے ۔
آج ہم رو رہے ہیں کہ ہمارے ادارے اپنی حدود میں نہیں ہماری عدالتوں میں انصاف نہیں ایک سے جان چھوٹتی ہے تو دوسرا چہرہ اسی ذہنیت کےساتھ آن بیٹھتا ہے، ایک نوعیت کے معاملے میں متضاد فیصلے ہر ذی شعور کو حیران اور پریشان کیے ہوئے ہیں۔عین حالت جنگ میں بولا گیا چرچل کا ایک فقرہ ضرب المثل بن چکا ہے کہ ’’اگر ہماری عدالتیں انصاف دے رہی ہیں تو اس ملک و قوم کو کوئی خطرہ نہیں ‘‘درویش کا دادا کہتا تھا پتر انصاف انگریزوں پر ختم تھا ہو سکتا ہے کوتاہی بھی ہوئی ہو مگر پارٹیشن کے بعد ہم نےجو جوڈیشل ایکٹیوازم دیکھا اس پر حوالہ جات کے ساتھ ایک پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے ۔
آج ہماری ماتحت عدالتوں سے لیکر سپریم جوڈیشری تک کس کس پر بات کریں اور کیسے؟ کہا تو یہ گیا تھا کہ وہ شخص امامت نہ کرے جسے نمازی پسند نہ فرمائیں یہاں جس بینچ پر عدم اعتماد کیا جاتا ہے وہ اس فرمان پر عمل پیرا کیوں نہیں ہوتا ؟انصاف ہوتا نظر آنا یا انصاف کا خون ہونا آخر کس کو کہتے ہیں ؟ مزید کمی ہے تو جسٹس قاضی فائر عیسیٰ صاحب کا حالیہ خط ملاحظہ فرمالیا جائے۔
سو باتوں کی ایک بات ،کسی بھی پارلیمانی جمہوریت میں منتخب وزیر اعظم قومی قائد ہوتا ہے وہ ایک طرح سے اپنی قوم کا باپ ہوتا ہے، اپنے تمام شہریوں کو بلاامتیازِ رنگ ونسل، مذہب وعقیدہ یا جنس وزبان ایک نظر سے دیکھتا ہے اس ملک کے دیگر تمام ادارے محکمے یا افسران وغیرہ منتخب پارلیمینٹ کی عظمت کے سامنے سرنگوں ہو کر آئین کی مطابقت میں قائد ایوان کی اتھارٹی کو تسلیم کرتے ہیں۔
اس جمہوری عظمت و اتھارٹی کا تقاضا ہے کہ عسکری و عدالتی چیفس سے لیکر تمام بڑی بڑی تقرریاں منتخب قومی قائد کرے اور اس میں کسی بھی کو چون وچرا کا حق نہیں ہونا چاہئے ۔یہ اداروں کا ڈھول پیٹنا بھی ختم ہونا چا ہئے ،درویش کی نظر میں سپریم ادارہ صرف پارلیمینٹ ہے جو بائیس کروڑ عوام کی امنگوں کاترجمان ہے ۔بہتر ہو گا کہ سپریم جوڈیشری کو فیڈرل جوڈیشری یا فیڈرل کورٹ کا نام دیا جائے اور ججز کی اپوائنمنٹ کا طریق کار ترقی یافتہ مہذب جمہوری ممالک کی طرح منتخب پارلیمینٹ کے حوالے ہو۔ اگر ہم بھانت بھانت کی بولیوں، فکری انتشار اور سیاسی عدم استحکام کی جگہ مضبوط و مستحکم قوم بن کر اٹھنا چاہتے ہیں تو پھر پارلیمینٹ کی عظمت اور اس کے منتخب قائد کی اتھارٹی کو بالفعل منوانا ہوگا۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔