بلاگ
Time 04 اگست ، 2022

سابق کھلاڑی کا بیانیہ ڈوب گیا ؟

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پی ٹی آئی کے ممنوعہ فارن فنڈنگ کیس کا متفقہ فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان پر لگائے گئے الزامات درست ثابت ہو گئے ہیں۔ پی ٹی آئی نے ممنوعہ غیر ملکی فنڈنگ وصول کی۔

 عارف نقوی کی کمپنی سمیت 34غیر ملکی شہریوں، 351کاروباری اداروں اور غیر ملکی کمپنیوں سے ممنوعہ فنڈز لئے گئے ،عمران نے جھوٹا بیان حلفی جمع کروایا اور آٹھ اکاؤنٹس ظاہر کئے گئے جب کہ 13چھپائے گئے، کمیشن میں جمع کروائی گئی اسٹیٹمنٹس کی اسٹیٹ بینک ریکارڈ سے مطابقت نہیں تھی ،بینک اکاؤنٹس چھپانا آئین کے آرٹیکل 17کی خلاف ورزی ہے، اس سے قبل برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز کی نقوی اور ابراج کے حوالے سے رپورٹس شائع ہو چکی ہیں کہ کس طرح صدقات اور خیرات کی رقوم اپنے مذموم مقاصد میں اڑائی گئیں ۔اٹھتے بیٹھتے اپنے سیاسی مخالفین پر ’’چور ،چور ‘‘کے الزامات عائد کرنے و الے کی اپنی پارسائی کی قلعی مع ثبوتوں کےکھل گئی ۔

یہ نومبر 2014ءکی بات ہے جب کوئی اور نہیں تحریک انصاف کے بانی رکن اکبر ایس بابر ثبوتوں کے ساتھ الیکشن کمیشن گئے ،انہیں مختلف حربوں سے نہ صرف ڈرایا دھمکایا جاتا رہا بلکہ طرح طرح کے بیہودہ الزامات بھی عائد کئے جاتے رہے اس کیس کو آٹھ سال تک لٹکایا گیا ،پچانوےپیشیاں ہوئیں،تیس مرتبہ التوا مانگا گیا، پی ٹی آئی کی قیادت نے الیکشن کمیشن کے کم از کم 20 آرڈرز نظرانداز کئے، 6مرتبہ کمیشن کے دائرۂ اختیار کو چیلنج کیا گیا، 4مرتبہ وکیل بدلے گئے، 4مرتبہ درخواست گزار پر اعتراضات عائد کیے گئے ۔حنیف عباسی اس حوالے سے سپریم جوڈیشری میں گئے تو کہا گیا کہ جب تک الیکشن کمیشن کا فیصلہ نہیں آتا حکم جاری نہیں کیا جا سکتا ۔

پی ٹی آئی کے چیئرمین کو اپنی منی لانڈرنگ اور قانون شکنی کا پورا ادراک تھا جس کے خوف سے وہ ہمہ وقت چیف الیکشن کمیشن کا استعفیٰ مانگ رہے تھے ،جوں جوں فیصلے کی تاریخ قریب آ رہی تھی سکندر سلطان راجہ کے خلاف منافرت بھرے پروپیگنڈے کی مہم تیز تر ہوتی جا رہی تھی حالانکہ ما قبل وہ ان کی مثالیں دیتےنہیں تھکتے تھے اور ان کی اس عہدے پر تعیناتی کسی اور نے نہیں خود سرکار نے ہی کی تھی اور اب وہی چیف الیکشن کمشنر سیکورٹی مانگتے ہوئے کہہ رہے ہیں ،’’ مجھے اگرکچھ ہوا تو اس کی ذمہ دار پی ٹی آئی ہو گی میرا جرم صرف یہ ہے کہ میں نے پیش کردہ حقائق کے مطابق میرٹ پر فیصلہ سنایا ہے۔ ‘‘ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس نوع کا چلن کسی سیاسی گروہ کا ہوتا ہے یا کسی مافیا کا۔

اس فیصلے کے بعد اگلی ذمہ داری اس جو ڈیشری پر عائد ہوتی ہے جس نے ماقبل کہا تھا کہ پہلے الیکشن کمیشن کا فیصلہ آئے تو پھراس ضمن میں کوئی کارروائی ہو سکے گی۔ یہ اب ہمارے نظام عدل کی ساکھ کا امتحان ہے ۔

کیا یہ وہی جوڈیشری نہیں ہے جس نے تین مرتبہ منتخب ہونے والے وزیر اعظم کو اپنے بیٹے سے معمولی تنخواہ نہ لینے کے مبینہ جرم میں نہ صرف وزارت عظمیٰ سے ہٹا دیا تھا بلکہ اسے تاحیات نااہلی کی سزابھی سنا ڈالی تھی۔اقامہ سے پہلے پاناما کی کارروائی میں چار سو ملزمان میں سے صرف ایک شخصیت کو جبری انصاف کیلئے چنا گیا اور پھر جو دردناک حربے آزمائے گئے آنے والی نسلیں پڑھیں گی تو حیران ہوں گی کہ انصاف کا یہ بھی ایک چہرہ تھا ۔

یوسف رضا گیلانی بھی ایک منتخب وزیر اعظم ہی تھے جسےمحض اس الزام پر گھر بھیج دیا گیا کہ آپ نے اپنے پارٹی قائد کیخلاف ہماری ہدایات کی مطابقت میں خط کیوں نہیں لکھا۔ اس ملک میں یہ ہے عوام اور ان کے منتخب اداروں کی توقیر؟ یہاں معمولی بے ضابطگی پر ایک توانا جمہوری سیاسی جماعت نیشنل عوامی پارٹی اور بشمول خان عبدالولی خان اس کی قیادت کے ساتھ کیسا ظالمانہ سلوک روا نہیں رکھا گیا؟ کیا وہ ہماری تاریخ کا حصہ نہیں ہے ؟؟

قدرت کی رسی بڑی دراز ہے مگر جو لوگ اپنی پارسائی کی جعلی دھاک بٹھانے کے لیے تسبیح پکڑے دوسروں پر ’’چور ڈاکو ‘‘کے گھناؤنے الزامات عائد کرتے پائے جاتے ہیں ان کی اہلیت بالآخر عوام کے سامنےضرور آنی چاہئے ایسے لوگ مغرب کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے جسے وہ سب سے زیادہ جانتے ہیں لیکن اگر انہیں مغربی تہذیبی اقدار کا کچھ بھی ادراک ہو یا اپنی عزت نفس یا ساکھ کا کچھ پاس ہو تو اپنے اتنے سارے جھوٹ اور فراڈ سامنے آنے پر اکبر ایس بابر کے الفاظ میں ازخود ہی پارٹی قیادت یا سیاست کو خیر باد کہتے ہوئے گھر کی راہ لیں ، ورنہ لوگ کہیں گے کہ

اتنی نہ بڑھا پاکئی داماں کی حکایت

دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔