Time 23 اگست ، 2022
پاکستان

عمران خان کو سیاسی دوستوں اور ماہرین قانون کے متضاد مشورے

عمران خان کے ساتھی انہیں مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ اپنے مؤقف پر قائم رہیں کیونکہ ان کے رویے کا فائدہ ہورہا ہے اور انہیں ملک کا مقبول لیڈر بنارہا ہے/ فائل فوٹو
عمران خان کے ساتھی انہیں مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ اپنے مؤقف پر قائم رہیں کیونکہ ان کے رویے کا فائدہ ہورہا ہے اور انہیں ملک کا مقبول لیڈر بنارہا ہے/ فائل فوٹو

اسلام آباد ہائیکورٹ میں شروع ہونے والے توہین عدالت کے معاملے سے نمٹنے کیلئے عمران خان کو ان کے ماہرین قانون اور سیاسی ساتھی متضاد نوعیت کے مشورے دے رہے ہیں۔

عدالت نے عمران خان کو منگل کو نجی حیثیت میں طلب کرلیا ہے تاکہ اظہار وجوہ کے نوٹس کا جواب دے سکیں۔ 

ذرائع کے مطابق، عمران خان کے ساتھی انہیں مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ اپنے مؤقف پر قائم رہیں کیونکہ ان کے رویے کا فائدہ ہورہا ہے اور انہیں ملک کا مقبول لیڈر بنارہا ہے۔

عمران خان کے ساتھیوں کی رائے ہے کہ جب سے عمران خان نے تصادم کا راستہ اختیار کیا ہے اس وقت سے ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کی مقبولیت بے مثال انداز سے بڑھ رہی ہے لہٰذا اپنی بات سے پیچھے ہٹنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کی رائے ہے کہ ہم ان عناصر سے نمٹ لیں گے اور اب اگر ہم نے غیر فیصلہ کن رویہ اختیار کیا تو برسوں سے جو امیج بنایا گیا ہے وہ تباہ ہوکر رہ جائے گا۔

ذرائع کے مطابق عمران خان کے ساتھی انہیں یاد دہانی کرا رہے ہیں کہ تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ مقبول لیڈروں کو قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی سے کوئی نقصان نہیں ہوتا، حکام ایک اصل سیاسی لیڈر کو ہاتھ تک لگانے کی جرأت نہیں کرسکتے۔ 

ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان اس مشورے کو اچھا سمجھتے ہیں لیکن ساتھ ہی ان کے ماہرین قانون انہیں اس کے متضاد مشورہ دے رہے ہیں کہ ایسا مؤقف اختیار کرنے سے انکا سیاسی کیرئیر تباہ ہو سکتا ہے۔

انہوں نے عمران خان کو بتایا ہے کہ قانون کے راستے میں رکاوٹ بننا سنگین جرم ہے اور حکام اس پر سنگین ایکشن لے سکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جیسے ہی ہم اقتدار میں آئیں گے تو ایسے عناصر کو دیکھ لیں جو ہمارے خلاف کام کر رہے ہیں۔ اگر ہم نے لڑائی کا راستہ اختیار کیا تو ناقابل تلافی نقصان ہوسکتا ہے، اس حوالے سے رات دیر تک مشاورتی بحث جاری رہی۔

اگر عمران خان نے معافی مانگ لی تو اس سے انہیں کچھ مدد مل سکتی ہے لیکن امکان ہے کہ عدالت آسانی سے فوراً معافی قبول نہیں کرے گی۔ 

ذرائع کا کہنا ہے کہ نون لیگ کے رہنماؤں کو سزائیں دی گئیں اور انہیں سپریم کورٹ نے 2018 میں نااہل قرار دیدیا حالانکہ انہوں نے توہین عدالت کے معاملے میں غیر مشروط معافی مانگی تھی۔

نوٹ:  یہ رپورٹ 23 اگست 2022 کے روزنامہ جنگ میں شائع ہوئی

مزید خبریں :