30 اگست ، 2022
لاہور ہائیکورٹ نے بریت کے بعد اُسی مقدمے کو مجرمانہ ریکارڈ کے طور پر پیش کرنا بنیادی حقوق کیخلاف قرار دے دیا۔
جسٹس علی ضیا باجوہ نے کیسز سے بریت کے باوجود ملزم کو ریکارڈ یافتہ قرار دینے پر اہم فیصلہ جاری کیا۔
فاضل جج نے قرار دیا کہ مجرمانہ ریکارڈ میں صرف وہی کیسز آتے ہیں جن میں ملزم کو سزا مل چکی ہو، ایف آئی آر، سزا معطلی کے احکامات بھی ملزم کے مجرمانہ ریکارڈ میں شامل ہوتے ہیں۔
جسٹس علی ضیا باجوہ نے قرار دیا کہ مقدمہ خارج کرنے کے عدالتی حکم یا پراسکیوشن کے مقدمہ واپس لیے جانے کو مجرمانہ ریکارڈ میں شامل نہیں کیا جا سکتا، عدالت سے بریت کے بعد ملزم کا ریکارڈ یافتہ ہونے سے کوئی تعلق نہیں۔
جسٹس علی ضیا باجوہ نے فیصلے میں لکھا کہ ملزم کیخلاف مقدمے کے حتمی فیصلے کے بغیر مقدمات کی محض فہرست پیش کرنا فرسودہ عمل ہے، ملزم کے مجرمانہ ریکارڈ میں بریت والے مقدمات کو غلط بیانی سے شامل کر کے عدالت کو جانبدار کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ہراسگی، حبس بے جا، ضمانت کیلئے عدالت سے رجوع کرنے والے درخواستگزار کے خلاف مقدمات کی فہرست پیش کرنا پولیس کا معمول ہے۔
عدالت نے ہدایت کی کہ عدالتی فیصلے کے فوری بعد ملزم کے خلاف کیس کا نتیجہ پولیس اسٹیشن ریکارڈ مینجمنٹ سسٹم اور پولیس کے متعلقہ رجسٹر میں درج کیا جائے اور آئندہ ریکارڈ یافتہ ملزموں کے خلاف مقدمات فہرست کے ساتھ کیسز کے نتائج بھی پیش کیے جائیں۔
خیال رہے کہ شہری ذوالفقار علی نے ایس ایچ او کاہنہ کی جانب سے ہراساں کیے جانے اور خود کو ریکارڈ یافتہ مجرم قرار دینے کے خلاف عدالت سے رجوع کیا تھا جس پر عدالت نے حکم جاری کیا ہے۔