31 اگست ، 2022
تحریک انصاف کے رہنماؤں کی آئی ایم ایف پروگرام سبوتاژ کرنے کی تمام تر سازشوں کے باوجود آئی ایم ایف بورڈ نے پاکستان سے معاہدے کی بالآخر منظوری کی تصدیق کردی ہے اور پاکستان کو اسی ہفتے آئی ایم ایف سے 1.17ارب ڈالر کی قسط موصول ہوجائے گی۔ اس طرح پاکستان پر منڈلا رہا ڈیفالٹ کا خطرہ ٹل گیا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے اسے مثبت پیش رفت قرار دیا ہے جس سے پاکستان کی معیشت کی سمت کے تعین میں مدد ملے گی۔ واضح رہے کہ آئی ایم ایف کا یہ معاہدہ پاکستان کیلئے زندگی اور موت کی حیثیت رکھتا تھا اور ایسی افواہیں گردش کررہی تھیں کہ یہ معاہدہ اگرطے نہ پایا تو پاکستان کی صورتِحال سری لنکا کی طرح کی ہوسکتی ہے۔
یہی وجہ تھی کہ آخری دن تک پی ٹی آئی قیادت کی سر توڑ کوشش رہی کہ آئی ایم ایف پروگرام کو ہر حال میں سبوتاژ کیا جائے جس کا انکشاف گزشتہ دنوں پی ٹی آئی رہنما شوکت ترین کی وزیر خزانہ پنجاب محسن لغاری اور وزیر خزانہ خیبر پختونخوا تیمور جھگڑا سے ہونے والی ٹیلیفونک گفتگو سے بھی ہوتا ہے جس میں وہ ان وزراکو وفاقی حکومت پر دباؤ ڈالنے، تعاون نہ کرنے اور آئی ایم ایف پروگرام سبوتاژ کرنے کیلئے خطوط لکھنے کی ہدایت دے رہے تھے۔ ان کے اس اقدام نے ہر ذی شعور شخص کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ کیا کوئی اقتدار کے حصول کیلئے ملکی سلامتی کو بھی دائو پر لگاسکتا ہے؟
عمران خان اور پی ٹی آئی قیادت کی شروع دن سے ہی یہ پوری کوشش رہی ہے کہ آئی ایم ایف معاہدے کی توثیق نہ ہونے پائے جس کے نتیجے میں اگر پاکستان کی معیشت تباہ حالی کا شکار ہوئی اور ملک دیوالیہ ہوتا ہے تو اس کی ذمہ داری شہباز شریف حکومت پر ڈالی جائے اور سیاسی فائدہ حاصل کیا جائے، چاہے اس کا نقصان پاکستان کو ہی کیوں نہ ہو۔ وہ اپنی سیاست چمکانے کیلئے پاکستان کی قربانی دینے پر بھی تیار ہیں۔ انکے اس اقدام کی عوام نے شدید مذمت کرتے ہوئے اسے ملک دشمنی کے مترادف قرار دیا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پی ٹی آئی قیادت موجودہ حکومت کے معیشت کی بحالی کیلئے کئے جا رہے اقدامات میں رکاوٹیں پیدا کررہی تھی۔ عمران خان کو اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں جب اس بات کا یقین ہو گیا کہ ان کی حکومت چند دنوں کی مہمان ہے تو انہوں نے آئی ایم ایف معاہدے سے انحراف کرتے ہوئے پیٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی دے کر آئندہ حکومت کیلئے بارودی سرنگیں بچھائیں۔ موجودہ حکومت کوبالآخر پیٹرولیم مصنوعات پر دی گئی سبسڈی ختم کرنا پڑی اور حکومت کے اس غیر مقبول فیصلے سے مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔
پی ٹی آئی کی معیشت کو تباہی سے دوچار کرنے کی سازشوں کو دیکھتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے گزشتہ دنوں یومِ آزادی کے موقع پر ایک بار پھر میثاقِ معیشت کے حوالے سے اپنی پیشکش کو دہرایا اور پی ٹی آئی پر زور دیا کہ وہ اپنے ذاتی اختلافات بھلاکر معیشت پر اتفاق رائے پیدا کرے تاکہ ملک درست سمت میں گامزن ہوسکے۔ وہ اس سے قبل بھی جب قائد حزب اختلاف تھے تو ’’میثاقِ معیشت‘‘ کا تصور پیش کرچکے ہیںمگر ان کی پیشکش کا مثبت جواب نہیں دیا گیا اور پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے وزیراعظم کی پیشکش کو یہ کہہ کر ٹھکرادیا کہ سیاسی جماعتوں کے پولیٹکل فریم ورک پر اتفاق رائے تو کیا جاسکتا ہے مگر معاشی فریم ورک پر سمجھوتہ سیاسی جماعتوں کے دائرہ اختیار میں نہیں۔
پاکستان آج اپنی تاریخ کے بدترین معاشی بحران سے گزر رہا ہے اور ملک کو درپیش معاشی مشکلات سنگین صورتِ حال اختیار کرچکی ہے۔ پاکستان کے پاس وسائل کی کمی نہیں، ہمیں صرف معیشت کو لاحق سیاسی خطرات پر قابو پانا ہے اور یہ ہماری ضرورت بھی ہے جو ملکی معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا کرکے ہمیں ترقی کی طرف گامزن کرسکتی ہے۔ ہم اگرسیاست کو معیشت سے الگ کردیں تو اس سے معاشی حکمتِ عملیوں کا تسلسل حاصل ہوگا۔
یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ پاکستان کو ایک ایسا وزیراعظم ملا ہے جو پچھلے کئی برس سے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اقتصادی ترقی کے حصول کیلئے میثاقِ معیشت کرنے کی دعوت دے رہا ہے اور اپنی سیاست پر ریاست کو ترجیح دے کر ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کررہا ہے۔
موجودہ حکومت نے مختصر وقت میں ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کیلئے غیر مقبول فیصلے کئے ہیں اور پارٹی سیاست کی قربانی دے کر ملک کو بچایا ہے جس کی انہیں سیاسی طور پر قیمت تو ادا کرنا پڑی مگر پاکستان دیوالیہ ہونے سے بچ گیا حالانکہ پچھلی حکومت کے پیدا کردہ معاشی بحران نے صورتحال کو مزید سنگین بنادیا تھا۔ سیاسی جماعتوں کو آج اس بات کا اعادہ کرنا ہوگا کہ حقیقی سیاسی قیادت الیکشن پر نہیں بلکہ آنے والے مستقبل پر نظر رکھتی ہے اور ہمیں قومی مفاد کو ذاتی انا، ضد اور ہٹ دھرمی کی بھینٹ نہیں چڑھنے دینا چاہئے کیونکہ معاشی آزادی کا ہدف حاصل کیے بغیر حقیقی آزادی کا تصور ناممکن ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔