15 ستمبر ، 2022
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے، بہت کچھ کہ تابعداری بھی۔رابن رافیل،عمران ملاقات ضروری، اگلے دن کامران خان کیساتھ فرمائشی پروگرام ضروری۔
سوال: ’’رابن رافیل سے ملاقات میں کیا بات ہوئی؟‘‘،جواب:’’رابن کو میں پرانا جانتا ہوں، امریکی سسٹم کوسب سےزیادہ سمجھتا ہوں ‘‘۔کیا بنی گالہ ملاقات امریکہ،اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان مک مکاؤ کیلئے، یا موجودہ مک مکاؤ کا اگلا حصہ؟ اسی سانس میں، ’’ حکومت میں کرپٹ لیڈروں کے اربوں ڈالر باہر ہیں، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اچھی طرح جانتے ہیں، وہ پاکستان کو امداد نہیں دیں گے‘‘۔سوال گندم، جواب چنا اور گول اتنا کہ ’’سیلاب زدگان کو امداد نہ ملے‘‘۔
بہت کچھ کہا ضرور،ہکلائے بھی،رابن سے ملاقات کی تصدیق کی نہ تردید۔انٹرویو میںامریکہ کی مداح سرائی میں زمین و آسمان کے قلابے بھی ملائے، مزید’’ ٹرمپ نے جو عزت مجھے دی ،کسی پاکستانی کے نصیب میں نہ آئی‘‘۔ اسی سانس میں جنرل باجوہ کی توسیع کا عندیہ دے ڈالا۔لگتا ہے میلہ سجایا ہی مملکت کیساتھ ایک اور واردات کےلئے تھا۔
شک نہیں،رابن رافیل ایک مخصوص ایجنڈا لے کر آنا فاناً پاکستان پہنچیں، عمران خان کے کرنے کے کام اور اگلا لائحہ عمل بتایا، پلک جھپکتے واپس۔وطن عزیز میں جس کسی نے اسٹیبلشمنٹ اور امریکہ کو آڑے ہاتھوں لیا، شدت اور حدت سے شعلہ بیانی کی ،پذیرائی ملی، رفعتیں پائیں۔ اسلامی ٹچ کا تڑکا اگر ساتھ ہو تو سیاسی مقبولیت کے ریکارڈ توڑنا بنتا ہے۔ عمران خان کی مقبولیت کی انہونی لہر نے بہت سارے واقعاتی معاملا ت کو پس پشت ڈالا، منوں مٹی تلے دفنا دیا ہے۔ جھوٹ کے پاؤں نہیں، لمبا عرصہ نہیں ٹھہر سکتا۔
ساڑھے تین سالہ دورِ اقتدار میں عمران خان کا کوئی ایک عمل جو دفتر میںموجود ہو؟کارکردگی دفتر اعمال سے خالی۔اس اخلاقی ،مالی بدعنوانیوں سے پی ٹی آئی حکومت مالا مال۔مقبولیت کا رازاسی میں تھاکہ امریکہ،اسٹیبلشمنٹ کو بُرا بھلاکہوتاکہ کارکردگی بھی صرف ِنظررہے۔اس میں دورائے نہیں کہ عمران خان نے شاطرانہ طریقے سے اپنے قبیلے کو ورغلایا، امریکہ اور فوجی قیادت پر ترکش میں پڑے سارے تیر چلا ڈالے۔اگر دن کو بُرا بھلا کہاتو رات جاکرلیٹ گئے۔عمران خان کا ’’ایب سو لوٹلی ناٹ‘‘سے لے کر امریکی سازش بذریعہ ڈونلڈ لو،میر جعفرمیر صادق اوران کے مہرے یکے بعد دیگرے جب بیانیہ لوگوں کی توجہ کا مرکزبنا،جھوٹ کو پذیرائی ملی، توتکار میں کنجوسی نہ دکھائی۔
وافر مقدار میں جعلی بیانیے کو سینکڑوں مرتبہ یکسوئی سے دہرایا۔ اول دن سے میری گردان کہ جھوٹ کے پاس وقت کی قلت،بالآخر آشکار ہو کر رہتا ہے۔ عمران خان کو معلوم ماننے چاہنے والے ایسے مقام پرلاکھڑا کروںکہ دن دہاڑے جرم میں پکڑا جاؤں تو قتل بھی معاف رہے۔اس سے پہلے الطاف حسین کا عمل ہم دیکھ چکے ہیں ،ہر کرتوت اخلاقی،مالی عیب ،قتل ،بھتے سب کچھ مگر ’’قائد کا ایک اشارہ،حاضرحاضر لہو ہمارا‘‘۔دلچسپ مماثلت اسٹیبلشمنٹ نے ہی تراشہ،بلندیوں تک پہنچایا، الطاف حسین کو RAWاوربرطانوی MI6 نے استعمال کِیا۔
کیا عمران خان آج امریکہ کے استعمال میں ہیں؟کیا جھوٹوں اور خام خیالی کا احاطہ ہو پائے گا؟ ’’میں واحد پاکستانی ہوں جس کو کسی امریکی صدر(ٹرمپ)نے اتنی عزت بخشی ‘‘۔قطع نظر اس کے کہ صدر ٹرمپ بذات خود ایک نفسیاتی عجوبہ ہے۔ماضی میں لیاقت علی خان سے بھٹو، ایوب خان، جنرل ضیاء، مشرف ،بے نظیر ، نواز شریف درجنوں مثالیں ایسی جہاں امریکہ نے پاکستانی سربراہان کو مبالغے کی حد تک مغالطے میں ڈالا ، پذیرائی دی۔نواز شریف بل کلنٹن تعلقات کی دو مثالیں حاضر ہیں۔ 8فروری1999ء کو ارد ن کے شاہ حسین کی تجہیز و تدفین پر امریکی صدر کلنٹن اور وزیر اعظم نواز شریف دونوں دارلحکومت میں موجود تھے۔ نواز شریف ہوٹل کے کمرے سے تیارہورہے تھے کہ صدر کلنٹن سارے لوازمات اورپروٹوکول روندتے ہوئے کمرے میں بغیر بتائے داخل ہوتے ہیں۔پہلا فقرہ داستان ا میرحمزہ ،ہزار کہانیاں، ’’کہاں ہے میرا دوست نواز شریف ،اُسے میں ڈھونڈتا پھررہا ہوں‘‘۔
یاد رہے کہ یہ وہ زمانہ جب امریکہ پاکستان تعلقات ایٹمی دھماکوں کی وجہ سے سرد مہری اور تناؤ کا شکارتھے۔ نواز شریف نے امریکی صدر کی اربوں ڈالر کی پیشکش ، منت سماجت ٹھکرادی، ABSOLUTLY NOTکہا۔ اس سے جڑا واقعہ 4جولائی 1999،امریکہ میں چھٹی کا دن، کارگل میں پاکستانی پے در پے شہید ہو رہے تھے ،پیش قدمی برابر جاری تھی۔نواز شریف کی منت سماجت کی گئی کہ فوراً امریکہ جائیں اور کارگل جنگ رُکوائیں۔ نواز شریف بجلی کی کوند مانند امریکہ پہنچ گئے۔صبح سویرے کلنٹن کو اُٹھایا گیااورکارگل جنگ بند ہوگئی۔پاکستان کی عزت کو نوازشریف نے بچالیا۔بات اتنی ملحوظ خاطر 4جولائی(یوم آزادی) اور 25دسمبر (کرسمس) پورا امریکہ بند، ایک ہو کا عالم رہتا ہے۔امریکہ کا ہماری اسٹیبلشمنٹ کے معاملات پر غیر معمولی اثرو رسوخ ہمیشہ عیاں اور حقیقت بھی۔
بقول جنرل حمید گُل’’ہمارے فوجی سربراہ بنانے میں امریکہ کا مقام پیش نظر رہتا ہے ، سخت گیر مسلمان سربراہ نہ بن پائے‘‘۔امریکی دانشور، صحافی،ماہر پاکستانیات ERIC MARGOLISکا دعویٰ ’’کہ آئی ایس آئی چیف بھی وہی جو امریکہ من بھائے‘‘۔لیاقت علی خان، بھٹو،جنرل ضیاء اور بے نظیر کے قتل کے نقشِ پاءCIAکے طریقۂ واردات سے جوڑے گئے۔ امریکہ نے عمران خان کو اقتدار سے علیحدہ کرنے میںاگر کوئی رول ادا کیا توپھر یہ ماننے میں عار کیوںکہ نواز شریف حکومت گرانے میں امریکہ گوڈے گوڈے ملوث تھا۔جب نوازشریف کے خلاف JIT رپورٹ ابوظہبی میں تیار ہوئی تو معلوم تھا،CIAاورISIکا ’’مشترکہ مفاد‘‘،باہمی کاوشوں کا نتیجہ ہی تو تھا۔
عمران خان کو رابن رافیل سے ملاقات چھپانے کی کیا ضرورت تھی؟کیا کوئی احساس جرم یا اپنے چاہنے والوں کی آنکھوں میں مزید دھول جھونکنا اوردھوکہ دینا مقصود؟رابن رافیل کی بنی گالہ آمد،عمران خان ڈرامہ پارٹ ون کا رسمی اختتام اور پارٹ ٹو کا آغاز سمجھیں۔ جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن ،امریکہ بارے پینترا بدلنا (U TURN)،مخلوط حکومت کا خاتمہ( سیاسی ابتری کو مزید وسعت اور پیچیدہ بنانا)،اگلے سال اوائل میں الیکشن کیلئے چند ہفتوں میں مخلوط حکومت کو گرانا۔ سیاسی بحران کو شدید کرنےکیلئے عمران خان کی ستمبر میں لانگ مارچ کال،سب کچھ حاضر ہونے کو ۔ہمیشہ سے یقین کامل،عمران خان کی موجودہ تحریک کے پیچھے امریکہ ہے۔پاکستان میں سیاسی افرا تفری ،اقتصادی ابتری کے ذریعے وطنی بنیادوں کو کھوکھلا کرنا،اس کارِ خیر میں اورکون کون ملوث ،اگرچہ تعین کرنا آسان ہے مگر نام لینا مشکل ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔