09 جنوری ، 2023
کراچی کے علاقے مچھر کالونی کو جہاز سازی سے منسلک ہوئے ایک زمانہ گزر چکا ہے اور اب تک کشتی ساز اپنے آباؤ اجداد کے پیشے سے جڑے ہوئے ہیں۔
علاقے میں موجود اس بوٹ یارڈ میں نہ صرف کشتیاں تیار کی جاتی ہیں بلکہ مرمت کے لئے بھی لائی جاتیں ہیں، جن میں بیرون ممالک جانے والی لانچیں بھی شامل ہیں ۔
محمد خان اس پیشے سے اس وقت منسلک ہوئے جب وہ محض 15 سال کے تھے ،انہوں نے جیو ڈیجیٹل کو بتایا کہ جہاز سازی حضرت نوح (ع) کے دور سے کی جارہی ہے، بزرگوں نے اس پیشے کا انتخاب کیا اور اب کئی دہائیوں سے یہ سلسلہ جاری ہے ،بوٹ یاررڈ میں جہاز، کشتیاں اور لانچیں تیار کی جاتی ہیں جبکہ فشنگ ٹرالر بھی بنائے جاتے ہیں لیکن یہ سارے مراحل ہاتھ کے سہارے طے کئے جاتے ہیں۔
محمد خان نے کہا کہ انہیں حکومت سے گلہ ہے کہ یہاں زخمی ہونے والے مزدوروں کو کوئی سہولت نہیں دی جاتی ہے جس کی وجہ سے کئی ہنر مندوں نے جہاز سازی کو خیر باد کہہ دیا ہے، ان کے مطابق یہ کاروبار رجسٹرڈ بھی نہیں ہے جس کی وجہ سے مزدوروں کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں جہاز سازی نقشے کے ذریعے کی جاتی ہے لیکن کراچی کے کشتی سازوں نے بڑے بڑے آرکیٹیکٹس اور انجینئرز کو پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔
عون علی 14 سال کے تھے جب وہ اپنے والد کے ساتھ اس پیشے سے منسلک ہوئے،میتھامیٹکس میں بی ایس سی کی تعلیم ہونے کے باوجود عون نے اپنے آبائی کاروبار کو اہمیت دی اور باقاعدہ نقشے سازی کا آغاز کیا۔
البتہ ان کا کہنا ہے کہ اب ہنر آرکیٹیکٹس اور انجینئرز سے آگے نکل گیا ہے اور اب جہاز سازی بغیر نقشے کے کی جارہی ہے ،کوئی آفیشل ادارہ اگر کام کروائے تو نقشے کے تحت کشتی سازی کرلیتے ہیں لیکن زیادہ تر کام بغیر نقشے کے ہی کیا جارہا ہے ۔
جہاز سازی میں برمہ سے آنے والی برمہ ٹیک لکڑی استعمال کی جاتی تھی جس کے مہنگے ہونے کے بعد ملیشیا سے آنے والی پائن وڈ کا استعمال شروع ہوا لیکن اس پر مہنگائی کا قہر ٹوٹتے ہی کونگو کی لکڑی باڈی کے لیے استعمال کی جانے لگی جبکہ اسٹرکچر کے لیے لوکل لکڑی کا انتخاب کیا گیا ۔
لکڑی کی کٹائی اس پیشے کا اہم اور خطرناک ترین حصہ ہے ، منظور نے بورٹ یارڈ میں میں اپنی جوانی کا ایک طویل حصہ لکڑی کاٹتے گزارا ہے ، وہ کہتے ہیں کہ پہلی بار جب لکڑی کی کٹائی دیکھی توسوچا کہ یہ وزن کس طرح سنبھالیں گے لیکن جب انسان ارادہ کرتا ہے تو ہمت اللہ دے ہی دیتا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ لکڑی جب ٹوٹتی ہے تو مثل ننگی تلوار جسم کے کسی بھی حصے میں لگ سکتی ہے لیکن اب کام کرنے کی عادت ایسی ہے کہ انہیں خوف نہیں آتا، منظور نے کہا کہ انہوں نے اپنے ابتدائی دنوں میں بطور ہیلپر 600 روپے ہفتہ پر کام کیا اور آج وہ بہت سے مزدوروں کے استاد کہے جاتے ہیں جبکہ بورٹ یارڈ میں اب بھی مزدوروں کو 6 ہزار روپے ہفتہ مزدوری دی جاتی ہے ۔
سمندر ان جہاز سازوں کا سب کچھ ہے دوست بھی ، ہمراز بھی اور دشمن بھی جو اگر بپھر جائے تو ہچکولوں میں کشتی ہی نہیں زندگی بھی آجاتی ہے اور اگر نہ چڑھے تو جہاز مٹی کا مقدر بن کر دھنس جایا کرتے ہیں ۔
پانی ان کشتی سازوں کے مقدر کا ستارہ ہے جس کے چڑھتے ہی یہ اپنے کھلونے آغوش سمندر میں اتار دیتے ہیں اس امید پر کے ڈوبتا سورج ابھارنے والا ان کی نیا کو ڈوبنے نہیں دے گا ۔
لانچیں تیار ہونے کے بعد کرین کی مدد سے کنارے تک لائی جاتی ہیں، یہاں سے جاوید ہاشمی اور ان کی ٹیم کا کام شروع ہوتا ہے، لانچوں اور جہازوں کو سمندر میں اتارنے کے لئے20 سے 25 افراد کا عملہ کام کرتا ہے ، جاوید بھی بچپن ہی سے اس کام سے منسلک ہیں ۔
ان کا کہنا ہے کہ چاند کی پہلی اور پندرہرویں تاریخ آتے ہی سمندر کا پانی چڑھ جاتا ہے، پانی کے چڑھتے ہی کنارے پر لگے جہاز کے نیچے گریس لگے تختوں کے زریعے عملے اور کرین کی مدد سے دکھیل کر سمندر میں اتارا جاتا ہے جہاں دو کشتیوں کی مدد سے اسے سمندر کی موجوں کے حوالے کردیا جاتا ہے ۔
جاوید کہتے ہیں کہ وہ اور ان کے عملے کے تمام لوگ پانی کے چڑھنے کا انتظار کرتے ہیں اور دعائیں کرتے ہیں کہ جہاز نہ ڈوبے ،اگر پانی کا چڑھاؤ کم ہو تو جہاز زمین میں دھنس جاتے ہیں جن کو نکالنے میں کئی مہینے لگ جاتے ہیں ۔
یہ کہانی کسی رومانوی قصے سے کم نہیں لگتی البتہ اس قصے میں ابن آدم کسی پری کے اترنے کا نہیں بلکہ سمندر اور پانی کے چڑھنے کے انتظار میں ہے ۔