پاکستان
18 دسمبر ، 2012

فنڈ کے خفیہ ہونے کا جواز سامنے آنا چاہیے ،جسٹس جواد ایس خواجہ

 فنڈ کے خفیہ ہونے کا جواز سامنے آنا چاہیے ،جسٹس جواد ایس خواجہ

اسلام آباد…جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا ہے کہ فنڈ کے خفیہ ہونے کا جواز سامنے آنا چاہیے ، آرٹیکل 19 اے کے تحت عوام الناس کا حق ہے کہ وہ جان سکیں کہ ان کی جیبوں سے نکلنے والا پیسہ کہاں خرچ کیا گیا،خفیہ فنڈز کی وجوہات نہ بتانے پر اس کا عدالتی جائزہ لیا جا سکتا ہے جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے میڈیا کمیشن کی تشکیل کے لیے سینئر صحافی حامد میراور ابصار عالم کی آئینی درخواست کی سماعت کی ، حامد میر نے عدالت کو بتایا کہ خفیہ فنڈ کے ذریعے میڈیا کو کنٹرول کیا جاتا ہے چند صحافی فائدہ اٹھاتے ہیں اور پوری برادری بدنام ہوتی ہے، صرف وزارت اطلاعات، انٹیلی جنس بیورو اور وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی ہی نہیں بلکہ 27 محکموں کے خفیہ فنڈ ہیں، ان تمام محکموں کو آڈیٹر جنرل کی جانب سے خطوط ارسال کیے گئے تاہم انہوں نے تفصیلات بتانے سے انکار کر دیا اور یہ بات پبلک اکاونٹس کمیٹی کے سامنے بھی کہی گئی ہے، حامد میر کا کہنا تھا کہ چیئرمین پیمرا کو صرف کیئر ٹیکر کے طور پر دیکھ بھال کا چارج دیا گیا تھا اس پر عدالت نے قائم مقام چیئرمین عبدالجبار سے ان کی تقرری کا نوٹی فی کیشن طلب کر لیا،سینئر صحافی ابصار عالم کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی کے 2002 اور 2008 کے منشور میں فرق ہے،شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے منشور میں کہا تھا کہ وزارت اطلاعات کو ختم کر دیا جائے گا، جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے کہ انتخابی منشور ووٹوں کے حصول کے لیے پیش کیا جاتا ہے انتخابی وعدے پورے نہیں ہوتے تو عوام اپنے نمائندوں سے جواب دہی کر سکتے ہیں۔سپریم کورٹ نے اشتہاری کمپنی کو 135 ملین روپے کی غیر قانونی ادائیگی سے متعلق جواب طلب کر لیا ہے ، جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا ہے کہ اشتہاری کمپنی کو مختلف محکموں اوروزارت کی جانب سے منتخب کرنے کے لیے کیا طریقہ کار اختیار کیا گیا ، کیا پیپرا رولز پر عمل کیا گیا، متعلقہ اداروں یا وزارت کی جانب سے کتنی رقم اور کس مقصد کیلئے جاری کی گئی، میڈیا میں اشتہار جاری کرنے کے لیے اشتہاری کمپنی نے کیا طریقہ کار اختیار کیا۔

مزید خبریں :